محترم محمد عیسیٰ جان خان صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍مارچ2008ء میں مکرم چوہدری رشیدالدین صاحب کے قلم سے محترم محمد عیسیٰ جان خان صاحب کا ذکر خیر شامل اشاعت ہے جن کی خودنوشت سوانح 13؍فروری 1998ء کے شمارہ کے اسی کالم کی زینت بن چکی ہے۔
دسمبر 1958ء میں خاکسار کا تقرر بطور مربی سلسلہ کوئٹہ ہوا تو وہاں محترم محمد عیسیٰ جان خان صاحب سے تعارف ہوا۔ ان کے خلوص،محبت اور بے لوث خدمت نے بہت متأثر کیا۔ ملازمت کے معین وقت کے علاوہ اُن کا سارا وقت خدمت سلسلہ کے لئے وقف تھا۔ وہ جہاں کہیں بھی رہے ان کا یہ وصف نمایاں ہو کر سامنے آیا۔
مکرم خان صاحب کا تعلق صوبہ سرحد سے تھا۔ وہاں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ اسلامیہ کالج لاہور میں داخل ہوگئے۔ گورارنگ، دراز قد، سڈول جسم اور اچھا کھلاڑی ہونے کے باعث مقبول لیڈر بن گئے۔ لیکن بعض مجبوریوں کے باعث تعلیم ادھوری چھوڑ کر آپ کو ملازمت کرنی پڑی جس کے لئے بہاولپور چلے گئے۔ وہیں پہلے جماعت لاہور سے تعلق ہوا پھر جلد ہی خلافت سے وابستہ ہوگئے۔ اس طرح اگرچہ انہیں ذہنی سکون تو حاصل ہوگیا لیکن روزگار سے محروم ہونا پڑا۔ یہ 1942ء کی بات ہے، دوسری جنگ عظیم جاری تھی۔ آپ نے فوج کی ملازمت اختیار کرلی۔ یہاں بھی تبلیغ کرنے پر ایک افسر سے تلخ کلامی ہوگئی اور آپ کا تبادلہ رنگون (برما) کر دیا گیا جہاں حالات سخت مخدوش تھے۔ جاپانی فوج نے رنگون کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اور بہت سے انگریز فوجی قیدی بنالئے تھے۔ان خطرناک حالات میں آپ روانہ ہوگئے۔ لیکن جب کلکتہ پہنچے تو وہاں فوجی دفتر میں ایک آدمی کی ضرورت تھی چنانچہ آپ کو ایک مہینہ کے لئے وہاں روک لیا گیا۔ اس کے بعد جب آپ کو ہوائی جہاز پر رنگون بھجوایا گیا تو جاپانیوں کو شکست ہوچکی تھی اور وہ شہر خالی کر چکے تھے۔ آپ کو وہاں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ وہاں چھ ماہ قیام کے دوران آپ خدمت خلق اور دعوت الی اللہ بھی کرتے رہے۔ جنگ کے خاتمہ پر1945ء میں کوئٹہ آکر آرڈیننس ڈپو میں کام کرتے رہے۔
مکرم خانصاحب خلیفۂ وقت کی ہر تحریک پر لبیک کہتے۔ تقسیم ہند کے وقت حفاظت مرکز کے لئے قادیان جارہے تھے کہ راستہ میں ہی روک دیئے گئے۔ واپسی پر شرپسندوں کی فائرنگ سے آپ کی ٹانگ میں گولی لگی جس کا علاج لاہور میں ہوتا رہا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ٹانگ کٹنے سے محفوظ رہی۔ صحت ہوئی تو کوئٹہ آگئے۔
محترم خانصاحب بہت مہمان نواز تھے۔ مہمان نوازی کے ساتھ تبلیغ کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔ بہت اچھے مقرر اور مدلل خطیب تھے۔ کوئٹہ میں عیال داری اور مہمان نوازی کی وجہ سے آپ کے مالی حالات کمزور ہی رہے۔ ایک دفعہ احباب کے اصرار پر تہران چلے گئے لیکن تیسرے ماہ واپس آگئے اورفرمایا کہ مناسب کام بھی نہیں ملا اور وہاں تو نہ عبادت کا مزا اور نہ دعوت الی اللہ کی آزادی۔ مالی تنگی کے ساتھ اگر انسان کو خدمت دین کی توفیق مل جائے تو یہ ہزار نعمت ہے۔
آپ کے اکثر رشتہ دار دنیادار اور کھاتے پیتے لوگ تھے۔ وہ آپ کو طعنہ دیتے کہ جب سے آپ نے احمدیت قبول کی ہے آپ فارغ البالی سے محروم ہوگئے ہیں۔ اگرچہ آپ اُن کو یہی کہتے کہ مجھے ذہنی سکون حاصل ہے تاہم کچھ عرصہ کی مالی تنگی کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کی اولاد کو بے شمار نعماء سے نوازا۔
10نومبر 2007ء کو 93سال کی عمر پاکر محترم خان صاحب کی کینیڈا میں وفات ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں