محترم محمد منیر خان شامی شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍جنوری 2006ء میں مکرم پروفیسر محمد شریف خانصاحب کے قلم سے اُن کے بھائی محترم محمد منیر خان شامی شہید کا ذکر خیر شامل اشاعت ہے۔

پروفیسر محمد شریف خان صاحب

مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ ہمارے والد ڈاکٹر حبیب اللہ خان صاحب ابوحنیفی مرحوم کا تعلق ایک کٹر حنفی خاندان سے تھا۔ آپ نے احمدیت کا ذکر بھی سنا تھا تو مخالفت میں۔ جب آپ افریقہ گئے اور وہاں احمدیوں کو قریب سے دیکھا تو دعا کے بعد انشراح صدر ہوا اور آپ نے احمدیت قبول کرلی۔ پھر جب آپ افریقہ گئے تو اپنے بیوی بچوں کو دینی ماحول میں تربیت کی خاطر قادیان میں چھوڑ گئے۔ میرے بڑے بھائی ڈاکٹر محمد حفیظ خان صاحب میڈیکل سکول امرتسر کے طالبعلم تھے جبکہ بھائی محمد منیر خان شامی تعلیم الاسلام کالج قادیان میں پڑھتے تھے۔ گھربار کی نگرانی انہی کے سپرد تھی۔ آپ 1922ء میں تنزانیہ میں پیدا ہوئے، وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ چونکہ واقف زندگی تھے اس لئے M.Sc کرنے کی ہدایت آپ کو کی گئی۔ 1947ء میں آپ B.Sc کے آخری سال میں تھے۔ صاف ستھرا علمی ذوق رکھتے تھے۔ مطالعہ کا بے حد شوق تھا۔ ملکی اور عالمی حالات پر گہری نظر تھی اور عربوں سے ہمدردی کی بناء پر شامی کہلاتے تھے۔
1947ء میں تقسیم ہند کے وقت حالات خراب ہوئے تو وہ سارا دن ڈیوٹی پر رہتے اور شام کو کچھ دیر کے لئے خیریت معلوم کرنے گھر آتے۔ رات کو گولیاں چلنے کی آوازیں آتیں۔ اسی دوران ایک خالہ زاد بھائی جو فوج میں ملازم تھے، ہمیں لینے کے لئے ٹرک لے کر آگئے۔ والدہ کے کہنے کے باوجود بھائی منیر گھر میں ہی ٹھہرے رہے کیونکہ یہی ہدایت تھی۔ اُن کے پاس ابّاجی کی دو نالی بندوق بھی تھی لیکن اُسی رات سکھوں نے حملہ کیا تو بھائی نے کچھ مقابلہ بھی کیا لیکن جب صبح خدام گئے تو دیکھا کہ آپ صحن میں خون میں لت پت پڑے تھے، پیٹ چاک تھا اور شہید ہوچکے تھے۔ اباجی نے افریقہ میں یہ صدمہ بہت بہادری سے سہا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اپنے خطبہ جمعہ 11؍جون 1999ء میں شہداء کے ضمن میں آپ کا بھی ذکر فرمایا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں