محترم محمود احمد شاد صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 31؍اگست 2010ء میں مکرم پروفیسر راجا نصراللہ خان صاحب کا ایک تفصیلی مضمون شامل اشاعت ہے جو آپ نے اپنے برادر نسبتی محترم محمود احمد شاد صاحب مربی سلسلہ (شہید) کی سیرت و سوانح کے حوالہ سے تحریر کیا ہے۔

محمود احمد شاد صاحب

28 مئی 2010ء کو مسجد بیت النور لاہور پر خطبہ جمعہ کے دوران دہشت گردوں نے حملہ کیا تو محترم محمود احمد شاد صاحب نے دوستوں کو دعائیں کرنے اور درود شریف پڑھنے کی تلقین کی اور خود بھی ذکر الٰہی میں مصروف ہوگئے۔ اس سفّاکانہ حملے کے نتیجہ میں آپ سمیت 26 احمدیوں نے شہادت پائی۔
مکرم محمود احمد شاد صاحب کے والد کا نام مکرم غلام احمد صاحب تھا جن کا تعلق بھلوال کے ایک گاؤں سے تھا۔ نہایت ہی مخلص، نیک اور عبادت گزار بزرگ تھے۔ جماعتی رسائل و کتب کامطالعہ آپ کا شوق تھا۔ آپ مختلف جگہوں پر نائب تحصیلدار متعین رہے۔ آپ کے گھر میں جب چھ بیٹیاں پیدا ہوئیں تو آپ نے دل میں عہد کیا کہ اگر بیٹا پیدا ہوا تو اسے اللہ کی راہ میں وقف کر دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں اور نیک عہد کو شرف قبولیت بخشا۔ جب آپ بغرض ملازمت عیسیٰ خیل میں مقیم تھے تو 31 مئی 1962ء کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹے سے نوازا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ فیملی لے کر ربوہ آگئے۔
مکرم محمود احمد شاد صاحب نے میٹرک ربوہ سے 1979ء میں پاس کیا تو آپ کے والد محترم نے آپ سے کہا کہ مَیں نے تمہاری پیدائش سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ میرے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو اسے دین کی خاطر وقف کردوں گا۔ الحمد للہ اب تم اس قابل ہوگئے ہو کہ مَیں تم سے تمہاری مرضی دریافت کروں اور میں چاہتا ہوں کہ تم جامعہ احمدیہ میں داخلہ لو۔ سعادت مند بیٹے نے اپنے والد محترم کی یہ نیک آرزو سن کر اسی وقت جامعہ میں داخلہ لینے کا ارادہ ظاہر کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے 1986ء میں مبلغ سلسلہ بن گئے۔
آپ چھ بہنوں کے اکیلے بھائی تھے۔ سب بہنوں کے ساتھ بہت احترام، محبت اور دلجوئی سے پیش آتے تھے۔ بلکہ ہر شخص کو ہی بہت اپنائیت اور مسکراتے چہرے سے ملتے تھے۔ نرم مزاج اور نرم گفتگو تھے۔ خوش الحان تھے۔ کئی اہم اجلاسات میں تلاوت قرآن کریم کی سعادت پائی۔ دعاؤں پر بہت زور دیتے تھے۔ ابھی جامعہ میں زیرتعلیم تھے کہ آپ کی والدہ صاحبہ پر فالج کا شدید حملہ ہوا اور ڈاکٹروں نے بتایا کہ اب وہ جسم کے بائیں حصے کو حرکت نہیں دے سکیں گی۔ آپ کو اس بات پر بہت دکھ ہوا اور آپ نے تمام گھروالوں کے ساتھ لمبی اجتماعی دعا کی اور اس دوران اللہ تعالیٰ کے حضور خوب آہ و زاری کی۔ ڈاکٹری دوا بھی جاری تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے چند ہی ماہ میں والدہ صاحبہ کی حالت بہت بہتر ہوگئی اور کچھ عرصہ بعد وہ چارپائی سے اٹھ کر چھڑی کے سہارے صحن میں چلنے پھرنے کے قابل ہوگئیں۔
جامعہ سے فارغ ہونے کے بعد کچھ عرصہ تک آپ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ میں متعین رہے۔ پھر خوشاب شہر میں تقرّر ہوا۔ اپنے فرائض ہمیشہ بڑے اخلاص اور محنت سے انجام دیئے۔ 1991ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ قادیان تشریف لائے تو آپ بھی جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہوئے۔ 2009ء میں بھی جلسہ سالانہ قادیان میں شریک ہوئے۔ واپسی پر لاہور میں آپ نے خواب دیکھا کہ حضرت مسیح موعودؑ قادیان میں مسجد اقصیٰ کے صحن میں تشریف فرما ہیں۔ آپ حضرت اقدسؑ کے پاس جا کر کہتے ہیں کہ حضور! میرے والدین آپؑ پر قربان! آپؑ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سلام۔ میرے والدین کی طرف سے سلام۔ میرے بیوی بچوں اور میرے بہن بھائیوں کی طرف سے سلام۔ اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے آپ کو گلے لگا لیا اور پیار کیا۔
آپ کے ننھیال اور ددھیال کے تقریباً سبھی رشتہ دار غیراحمدی تھے لیکن آپ کے والد محترم کی تربیت کے نتیجہ میں آپ کے گھرانہ کے اُن سب کے ساتھ بہت عمدہ تعلقات ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں برابر شریک ہوتے ہیں۔ چنانچہ سانحہ لاہور کے المناک موقع پر بھی یہ سارے رشتہ دار ربوہ آئے اور شہید مرحوم کی تدفین میں شامل ہوئے۔
1995ء میں آپ کو بطور مربی سلسلہ تنزانیہ بھیجا گیا۔ وہاں سے آپ نے ایک مفصل دردمندانہ تبلیغی خط اپنے غیرازجماعت رشتہ داروں کو لکھا جو اُن کے ساتھ آپ کی سچی بھلائی اور غمخواری کا ثبوت تھا۔
آپ کو تنزانیہ میں مشکل اور مخالف حالات میں بھی سلسلہ عالیہ کی خدمت کی خوب توفیق ملی۔ 1999ء میں ایک مخالف عرب عالم نے پولیس کو جھوٹی شکایت کردی کہ آپ نے مربی ہاؤس میں کچھ غیرقانونی باشندوں کو پناہ دے رکھی ہے۔ چنانچہ پولیس نے مربی ہاؤس پر چھاپا مارا۔ وہاں سے کچھ برآمد نہ ہوا لیکن پھر بھی پولیس آپ کو تھانے لے گئی۔ وہاں پر موجود پولیس افسر کو آپ نے جماعت کے حوالے سے اپنا تعارف کرایا تو پولیس افسر نے معذرت کرتے ہوئے آپ کو گھر جانے کی اجازت دیدی اور اس شر سے خیر کا پہلو یوں نکل آیا کہ پولیس کے ساتھ اچھے مراسم قائم ہوگئے۔ تنزانیہ سے 2004ء کے جلسہ سالانہ لندن میں آپ بطور نمائندہ شامل ہوئے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات کا شرف حاصل ہونے پر آپ نے اسی مخالف عرب عالم کی بابت عرض کیا کہ وہ ضد اور مخالفت میں ہمارے مشن کے عین سامنے اپنا مرکز بنارہا ہے۔ حضور انور نے آپ کو تسلی دی کہ ایسے مخالفین انشاء اللہ سلسلہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ جب آپ واپس تنزانیہ پہنچے تو کچھ ہی عرصہ کے بعد معلوم ہوا کہ چونکہ ملکی قوانین کے مطابق سڑک کے دونوں اطراف میں 20 میٹر کی جگہ چھوڑ کر کوئی تعمیر کھڑی کی جاسکتی ہے اس لئے مجاز افسران نے مخالف عالم کے بنائے ہوئے مرکز کو خلاف قانون قرار دیتے ہوئے اسے گرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بالآخر اس مخالف عرب کی مختلف منفی سرگرمیوں کی وجہ سے حکومت نے اسے ملک بدر کردیا۔
تنزانیہ میں ایک دفعہ کسی دورے پر جانے کی تیاری کے دوران آپ کی اہلیہ کو ملیریا بخار ہوگیا جو افریقی ممالک میں کافی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ انہوں نے آپ سے اظہار کیا کہ دورہ پر نہ جائیں تو آپ نے توکل علی اللہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے جواب دیا کہ مَیں اللہ کی خاطر کام پرجارہا ہوں اور تمہیں بھی اللہ کے حوالے کئے جارہا ہوں۔
تنزانیہ سے واپسی کے بعد آپ راولپنڈی شہر میں متعین ہوئے۔ فروری 2010ء میں آپ کا تبادلہ ماڈل ٹاؤن لاہور ہوگیا۔ یہاں آئے ہوئے تقریباً 3 ماہ کا عرصہ ہی گزرا تھا کہ مخالفین کی طرف سے دھمکیوں کے فون آنے لگے۔ جس دن دھمکی کی پہلی کال آئی آپ ایک شادی میں شرکت کی غرض سے گھر سے دُور تھے۔ اسی کال سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کچھ لوگ آپ کا پیچھا کررہے ہیں۔ اس اطلاع کے بعد خدام آپ کو اپنے ساتھ بحفاظت گھرلے آئے۔ آپ نے گھر آکر اپنی اہلیہ اور چھوٹے بیٹے (بڑا بیٹا بغرض ڈاکٹری تعلیم چین میں مقیم تھا) کو کہا کہ دیکھو کیسی عظیم الشان جماعت ہے، ان خدام کے ساتھ ہمارا کوئی خاندانی رشتہ نہیں سوائے ایمانی رشتہ کے لیکن یہ کیسی محبت سے ہماری حفاظت کیلئے مستعد رہتے ہیں۔ پھر رقّت کے ساتھ کہا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے اگر اللہ نے جماعت کی خاطر میری قربانی لینی ہے تو مَیں حاضر ہوں لیکن میری اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رکھنا۔
آپ اپنی چھ بہنوں کے اکیلے بھائی تھے۔ بھائی کو دھمکیوں کے پیغام آنے کے بعد بہنوں کو اپنے بھائی کے متعلق بہت فکر تھی۔ اس لئے وہ جب بھی اپنے بھائی کو فون کرکے اپنی تشویش اور خواہش کا اظہار کرتیں کہ آپ رخصت لے کر چند دنوں کے لئے ربوہ آجائیں تو جرأت و ایثار کا یہ پیکر اُن کو جواب دیتا ہے کہ کیا اس سے پہلے احمدیوں نے دین کی خاطر قربانیاں نہیں دیں؟ ہم نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔ اگر قربانی کی ضرورت پڑی تو مَیں حاضر ہوں، میدان چھوڑ کر کیوں آجاؤں؟ اور جب کبھی ان کی اہلیہ بہت پریشان ہو کر رو پڑتیں تو انہیں تسلی دیتے کہ اللہ تعالیٰ شہداء کے پسماندگان کو ضائع نہیں کرتا اور خود ان کی حفاظت اور کفالت فرماتا ہے۔ گویا مخالفین اور معاندین کی کوئی دھونس دھمکی آپ کے پائے ثبات اور احمدیت کے ساتھ وابستگی اور شیفتگی میں لغزش نہ پیدا کرسکی۔
آپ کی شہادت سے کوئی ایک ماہ پہلے کی بات ہے کہ ایک غیرازجماعت نوجوان کچھ سوالات لے کر آپ کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے پہلے بھی کئی احمدی حضرات کے ساتھ رابطہ کیا ہے لیکن میرے دل کو تسلی نہیں ہوئی۔ پھر آپ نے دو تین مجلسوں میں اس دوست کو جوابات دینے پر کئی گھنٹے صرف کئے اور اس دلسوزی سے ان کے ساتھ گفتگو کی کہ کئی دفعہ حضرت مسیح موعود کے الہامات اور اشعار پڑھتے بے اختیار اشک بار ہو جاتے۔ وہ دوست اس دلی تڑپ سے اس قدر متأثر ہوئے کہ پورے شرح صدر کے ساتھ کہنے لگے کہ جو شخص اس وابستگی اور وارفتگی اور گریہ کے ساتھ مجھے سمجھا رہا ہے اور میری تسلی کرا رہا ہے اُس کا تعلق کسی جھوٹے گروہ سے نہیں ہوسکتا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان صاحب کو حق پہچاننے کی توفیق ملی۔
شہادت سے ایک رات قبل یعنی 27 اور28 مئی کی درمیانی شب کو MTA پر خلافت جوبلی (27 مئی 2008ء( کے موقع پر حضور انور کا خطاب ایک بار پھر دکھایا جارہا تھا۔ آپ اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ساتھ وہ خطاب سن رہے تھے۔ پھر اونچی آواز میں عہد بھی دہرایا۔ آپ کا ارادہ تھا کہ اگلے روز مسجد بیت النور میں خطبہ دینے کے بعد سب احباب کے ساتھ یہ عہد بھی دہرائیں۔ مگر اللہ کو یہی منظور تھا کہ خطبے کے دوران ہی آپ راہ مولیٰ میں شہید ہوگئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں