محترم مرزا ظفر احمد صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4 دسمبر 2010ء میں شامل اشاعت مکرمہ ر۔ن۔ظفر صاحبہ نے اپنے مضمون میں اپنے شوہر محترم مرزا ظفر احمد صاحب شہید کا ذکرخیر کیا ہے جو دارالذکر لاہور میں28مئی 2010ء کو دہشت گردی کے سانحہ میں شہید ہو گئے۔
محترم مرزا ظفر احمد صاحب شہید 14؍اکتوبر 1954ء کو منڈی بہاؤالدین میں محترم مرزا صفدر جنگ ہمایوں صاحب اور محترمہ اقبال بیگم صاحبہ کے ہاں پیدا ہوئے۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کچھ عرصہ پاکستان میں ملازمت کی اور 30نومبر 1981ء کو جاپان چلے گئے۔ 2000ء میں دو مرتبہ مزید تعلیم اور کمپیوٹر کورسز کے لئے امریکہ گئے۔ مئی 2001ء میں ہم دونوں نے وقف عارضی کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بڑی شفقت سے قبول فرماتے ہوئے ہمیں احمدیہ سینٹر ناگویا بھجوا دیا ۔ مئی 2001ء تاستمبر 2003ء ہم احمدیہ سینٹر ناگویا میں مقیم رہے۔ پھر 19ستمبر 2003ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے پاکستان آگئے۔
قیام جاپان کے دوران محترم مرزا ظفر احمد صاحب کو بھرپور طو رپر خدمت دین کی توفیق ملی۔ لمبا عرصہ تک ٹوکیو میں صدر جماعت رہے۔ نیز نیشنل عاملہ کے مختلف شعبوں میں بطور سیکرٹری خدمت کے علاوہ نائب امیر اور جاپان کے اعزازی مبلغ بھی رہے۔ خدام الاحمدیہ جاپان کے صدر بھی رہے۔ خدمات کا یہ سلسلہ پاکستان آنے کے بعد بھی مقامی جماعت میں جاری رہا۔ آپ میں بے حد انتظامی صلاحیت تھی۔ کوئی بھی پروگرام ترتیب دینے سے پہلے اس کے ہر پہلو پر بڑی باریک بینی سے غور کیا کرتے تھے اور بہت چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی خیال رکھا کرتے تھے۔ مثلاً منتظمین کو یہ ہدایت تھی کہ بچوں اور مستورات کو کھانا پہلے پیش کیا جائے کیونکہ مستورات کے ساتھ بچے ہوتے ہیں جو بھوک کی وجہ سے شور کرتے ہیں۔
شہید مرحوم پنج وقتہ نمازوں اور نماز جمعہ کے بیحد پابند تھے۔ خلیفۂ وقت کے خطبات جمعہ باقاعدگی سے سنتے۔ نمازیں نہایت خشوع و خضوع سے ادا کرتے۔ اللہ تعالیٰ پر کامل توکل کرنے والے اور اُس سے بہت محبت کرنے والے وجود تھے۔ جلسہ سالانہ قادیان 2009ء میں شرکت کے بعد سے نماز تہجد بھی باقاعدگی سے ادا کرتے۔ خلافت احمدیہ سے بے انتہا محبت تھی۔ کوشش کرکے اور خرچ کر کے جب بھی موقع ملا خلفاء کی خدمت میں حاضر ہوتے اور اُن کی دعاؤں کا فیض اٹھاتے۔ میری جماعتی ذمہ داریوں میں بہت تعاون کرتے اور اپنے کاموں میں بھی مجھے شامل کرلیا کرتے۔ ہر چھوٹے بڑے عہدیدار کا احترام کرتے۔
آپ نہایت کم گو لیکن دل موہ لینے والی شخصیت کے مالک تھے۔ دیکھنے والی آنکھ محسوس کر لیتی کہ یہ کوئی عام شخص نہیں ہے۔ ہمیشہ عاجزانہ ادا سے خدمت دین کرتے، وقار عمل میں خدام کے ساتھ مل کر گھاس کاٹتے، احمدیہ سینٹر کے گٹر صاف کرتے، لنگر کا کھانا بناتے، لکڑی کی ٹوٹی دیوار کی مرمت کرتے، شیشے صاف کرتے حتیٰ کہ کوڑا کرکٹ بھی صاف کرتے۔ ان تمام کاموں میں کوئی بھی ریاء کا پہلو نہ تھا بلکہ شکر اور عجز کے جذبہ سے سرشار وجود تھے۔
گو دین کے لئے بے انتہا غیرت رکھتے تھے اور ایسی کسی بات پر تنبیہ بھی کرتے۔ لیکن آپ کی طبیعت میں غصہ بالکل نہ تھا۔ بڑی تحمل والی طبیعت کے مالک تھے۔ ہر بات ٹھہر ٹھہرکر اور سوچ کر کرتے تھے۔ انداز گفتگو بڑا مؤثر اور دھیما تھا۔ ہر فرد کی عزت کرتے تھے۔ بظاہر خاموش طبع لیکن خشک مزاج ہرگز نہ تھے۔ ان کی صحبت میں کبھی کوئی بور نہ ہوتا تھا۔ اپنے سے چھوٹوں سے پیار اور بزرگوں کی بہت عزت کرتے تھے ہر ایک کی محفل میں ماحول اور مرتبہ کے مطابق مزاحیہ سا چٹکلہ چھوڑ کر مجلس کو ہلکا پھلکا کر دیتے تھے۔ دوست اور بچے آپ کی پاکیزہ صحبت کو بہت پسند کرتے تھے۔ جاپانی لوگ بھی آپ سے بہت محبت کرتے تھے۔ جب ہم پاکستان مستقل طور پر شفٹ ہو رہے تھے تو جاپانیوں کی آنکھوں میں خاکسار نے آنسو دیکھے۔
شہید مرحوم صلہ رحمی کرنے والے تھے۔ کسی نے کوئی تکلیف بھی پہنچائی ہوتی تو بھی انہیں خوش دلی سے ملا کرتے اور کبھی شکوہ نہ کرتے۔ والدین کی بہت عزت اور بہن بھائیوں سے بہت پیار کرتے۔ ہر رشتہ کو اپنے مقام پر رکھتے تھے۔ کسی کی تکلیف برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ غرباء کا اتنا خیال تھا کہ اپنے ماتحتوں خواہ غیر از جماعت ہوں ان کی جملہ ضروریات کا بہت خیال رکھتے تھے۔ شدید مخالفین کے مانگنے پربھی قرض کی رقم دے دیا کرتے تھے اور پھر غریبوں سے واپسی کا مطالبہ نہ کرتے۔ ہاں اگر کوئی خود واپس کر دیتا تو لے لیتے۔
آپ ادبی ذوق رکھنے والے انسان تھے ۔ اچھے شعروں کو بہت پسند کرتے اور پسندیدہ شعراء کاکلام خرید لیتے۔ شعر یاد کرنے میں بھی حافظہ کمال کا تھا۔ ذاتی کتب خانہ میں سینکڑوں کتب موجود تھیں۔ آپ کا علم بھی بہت وسیع تھا اوردنیا کے ہر موضوع کو دعوت الی اللہ کی طرف پھیر دیا کرتے تھے۔
بہت محبت کرنے والے شوہر تھے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتے تھے۔ وہ ایک بہترین دوست تھے۔ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹا دیا کرتے تھے۔ کبھی شوقیہ کھانا بھی بنایا کرتے تھے۔ بڑے احترام سے بات کرتے۔ ویسے وہ ہر چھوٹے بڑے کو آپ ہی کہا کرتے تھے۔ اگر کسی عزیز کے رویہ کی وجہ سے میری دل آزاری ہو جاتی تو بہت دلجوئی کرتے۔ ویسے ہماری خوشیاں غلبہ اسلام سے وابستہ تھیں۔ دونوں کی سوچ ایک تھی۔ بلکہ دین کے کاموں میں ہم ایک دوسرے کے مددگار بن جایا کرتے تھے۔
آپ وقت کے بڑے پابند تھے اور خاکسار کی تربیت بھی اسی رنگ میں کی۔ صرف ایک ہی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ جب آپ ٹوکیو میں صدر جماعت تھے تو خاکسار عید کے روز جلد تیاری مکمل نہ کر سکی تو مجھے گھر چھوڑ گئے اور کہہ گئے آپ خود آجائیں مجھے جاکر ہال کھولنا ہے۔ خاکسار ان کے دس منٹ بعد پہنچ گئی تو ہال میں ان کے علاوہ کسی کو موجود نہ پایا۔ مَیں نے شکوہ کیا تو کہنے لگے کہ کوئی آئے یا نہ آئے میرا فرض ہے کہ مَیں وقت سے پہلے پہنچوں۔
آپ اعلیٰ درجہ کی مومنانہ صفات رکھنے والے خدا کے ایک عاجز بندے تھے۔ کبھی بھی اپنی کسی نیکی پر بڑائی نہیں چاہی۔ آپ نے ہمیشہ عجز کی راہ ہی اپنائی۔ باوجود اس کے کہ ان کی تنخواہ بہت اچھی تھی لیکن رہن سہن بہت سادہ تھا اور ایک واقف زندگی کی طرح کا ماحول تھا۔ تحریک جدید کے اصول کے مطابق ایک وقت میں صرف ایک سالن بنتا۔ صرف دعوت کے موقع پر دو سالن بنانے دیتے تھے۔ بہت مہمان نواز تھے۔ گھر آئے مہمان کو کھانا ضرور کھلا کر بھیجتے تھے (اگر کھانے کا وقت ہوتا)۔ چائے کا وقت ہوتا تو چائے پلاتے تھے۔ مہمانوں کے لئے اپنا بیڈ روم پیش کر دیتے اور خود فرش پر دوسرے کمرے میں منتقل ہو جاتے۔
آپ کو سیر کا خاص طور پر ہائیکنگ کا بہت شوق تھا۔ مجلس خدام الاحمدیہ جاپان کے صدر تھے تو Mount Fuji کی چوٹی بھی سر کی۔ بعد میں اصرار کرکے خاکسار کو بھی ہائیکنگ پر لے کر گئے کہ اس پہاڑ کی ایک منزل آپ کو ضرور سر کروانی ہے۔ چنانچہ پانچویں فلور تک خاکسار کو بس پر لے کر گئے پھر چوتھے فلور تک ہم نے ہائیکنگ کی تو بہت خوش ہوئے۔ اسی طرح Mount Tsbubaکی بھی ہائیکنگ کروائی۔
جب بھی ٹوکیو مشن بند ہوتا ہمارا گھر مشن بن جایا کرتا۔ جلسہ سالانہ برطانیہ و قادیان (انٹرنیٹ پر) سننے کا انتظام گھر پر مردوں اور عورتوں کے لئے علیحدہ علیحدہ کرتے۔ لنگر کا کھانا بھی بنواتے، بستر بھی تیار رکھتے کہ اگر کسی کو رات کو ٹرین بند ہو جانے کی وجہ سے رہنا پڑے تو رہ جائے۔ جلسہ کی کارروائی رات دیر تک جاری رہتی اور اسی لئے چائے اور سنیکس وغیرہ کا انتظام کرتے دیگر ضروریات کا خیال رکھتے۔ پاکستان آ جانے کے بعد لاہور میں اپنے گھر کو نماز سینٹر بنادیا۔
میرے گھر والوں سے بھی بڑی محبت اور احترام سے پیش آتے۔ میرے والد صاحب اور والدہ کی بیماریوں میں ہر طرح سے خیال رکھتے اور میرے چھوٹے بھائیوں کو اپنے بھائیوں کی طرح سمجھتے تھے۔
تلاوت قرآن کریم کا بہت شوق تھا اور باقاعدگی سے تلاوت کرتے اور ترجمہ بہت غور سے پڑھتے ہوئے گہرائی میں جاکر غور کیا کرتے۔ذکر الٰہی کی طرف انہیں بڑی توجہ تھی۔ دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا۔ انگریزی بولنے والے طبقے میں خاص طور پر پیغام پہنچاتے۔ اپنے کام کے سلسلہ میں کئی ممالک کا سفر کیا اور ہر جگہ جماعت کا تعارف کروایا۔
آپ سرتاپا جماعت احمدیہ کی محبت سے سرشار ایک متقی وجود تھے۔ جب بھی خاکسار کو نصیحت کی حضرت مسیح موعودؑ کے الفاظ میں کی۔ ایک بیوی اپنے شوہر کے اخلاق و سیرت کی سب سے بڑی گواہ ہوتی ہے۔ خاکسار نے انہیں ہر لحاظ سے دین کی خاطر، نفس ، عزت ، و قت ، مال اور جان کی قربانی کے لحاظ سے شہادت کے مرتبہ پر فائز پایا تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں