محترم مظفر احمد شرما شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26؍جولائی 2000ء میں مکرم خالد محمود شرما صاحب اپنے بڑے بھائی مکرم مظفر احمد شرما شہید شکارپور کا ذکرخیر کرتے ہوئے اپنے تفصیلی مضمون میں رقمطراز ہیں کہ 12؍دسمبر 1997ء کی رات جب محترم مظفر شہید اپنی بھابی (مکرم مبارک احمد صاحب شرما شہید کی بیوی) اور اُن کے بچوں کو اسٹیشن چھوڑنے جا رہے تھے تو راستہ میں گھات میں بیٹھے ہوئے دشمن نے آپ پر ریوالور سے فائرنگ کردی۔ زخمی ہوکر آپ موٹر سائیکل سے گر گئے۔ بھابی نے اٹھایا تو ابھی سانس جاری تھی ، ہسپتال پہنچایا گیا لیکن شہادت مقدر ہوچکی تھی۔ قبل ازیں 1974ء میں اسی جگہ آپ کے بڑے بھائی مکرم مبارک احمد صاحب شرما کو بھی دشمن نے کلہاڑیوں سے اتنی ضربیں لگائی تھیں کہ وہ کئی سال تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد انہی زخموں کے نتیجہ میں شہید ہوگئے۔
مکرم مظفر احمد شرما صاحب ابن محترم عبدالرشید شرما صاحب امیر جماعت ہائے اضلاع سکھر، شکارپور، جیکب آباد و گھوٹکی کے خاندان کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ نے 19؍دسمبر 1997ء کو اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ ان کے دادا منشی عبدالرحیم شرما ہندو سے مسلمان ہوئے تھے اور بہت ہی اخلاص رکھتے تھے۔ یہ انہی کا اخلاص ہے جو آج ان کے پوتوں کی شہادت کی صورت میں بول رہا ہے۔
محترم مظفر شہید کی عمر بوقت شہادت 42؍سال تھی اور آپ اپنے والد محترم کی غیرموجودگی میں چاروں مذکورہ اضلاع کے قائمقام امیر تھے نیز ان اضلاع کے سیکرٹری امور عامہ اور قاضی کی خدمات بھی بجالارہے تھے۔ سابق قائد اضلاع خدام الاحمدیہ کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پاچکے تھے اور اسیر راہ مولیٰ ہونے کی سعادت بھی آپ کو حاصل تھی۔ آپ بڑے باہمت اور دین کی غیرت رکھنے والے تھے۔ لمبے عرصہ سے دشمنوں کی طرف سے خطوط اور اخبارات میں اعلانیہ دھمکیوں کے باوجود آپ نہایت جرأت سے اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ چنانچہ حضور ایدہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ میں یہ بھی فرمایا: ’’یہ شہادتیں جو نیک کاموں میں مصروف رہنے کی وجہ سے دشمن کے چیلنج کے باوجود پیش کی جائیں، یہ شہادتیں بہت ہی قابل قدر ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ شہادت کے خوف سے کام نہیں روکنا‘‘۔
محترم مظفر صاحب اپنے والد محترم کے کاروبار میں اُن کی معاونت کرتے تھے اور پیشے کے لحاظ سے وکیل اور صحافی تھے۔ شہر میں آپ کا بہت نیک اثر تھا اور اس اثر کو استعمال کرتے ہوئے آپ نے بے شمار غرباء کی ہر قسم کی امداد کی۔ علاقہ میں تعصب کے باوجود آپ پریس کلب کے منتخب جنرل سیکرٹری تھے اور شہر کی اہم تقریبات میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کئے جاتے تھے۔
آپ نے کبھی کسی کا سوال ردّ نہیں کیا۔ شہادت کے بعد آپ کے کاغذات میں سے شہر کے اُن غرباء کی فہرست نکلی جن کے لئے آپ نے ماہوار راشن مقرر کیا ہوا تھا۔ آپ کے جنازہ میں شامل ہونے والے کئی غرباء و مساکین نے روتے ہوئے آپ کی شفقتوں کا انکشاف کیا۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں اپنا وصیت فارم لے کر آپ کے پاس تصدیق کے لئے گیا تو آپ فارم پڑھتے پڑھتے اس فقرہ پر آکر رُک گئے کہ ’’وصیت کرنے والا حقوق العباد غصب کرنے والا نہیں ہے‘‘، پھر کہنے لگے کہ مَیں یہ فقرہ پڑھ کر لرز گیا ہوں، معلوم نہیں کون اس شرط پر پورا اتر رہا ہے؟
محترم مظفر شہید نے اپنے والدین، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کی خدمت میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔ جب ہماری والدہ کی وفات 1982ء میں ہوئی تو ہم سب بہن بھائی بہت چھوٹے تھے۔ اُس وقت آپ نے اور آپ کی اہلیہ نے نہ صرف والد صاحب کی اتنی خدمت کی کہ اُن کا غم کم ہوگیا بلکہ ہم سب بہن بھائیوں کی مستقبل کی ضروریات کا بھی کئی سال پہلے سے خیال رکھا کرتے تھے۔ ہمیں کہا کرتے تھے کہ اپنی پریشانی اور مسائل مجھ سے بانٹا کرو اور والد صاحب کو صرف خوشی کی خبریں دیا کرو۔ جب والدہ کی وفات ہوئی تو میری عمر آٹھ نو سال تھی اور مَیں اُن کا بہت لاڈلا تھا۔ ایک لمحے کے لئے بھی اُن سے دُور رہنے کا تصور نہیں کرسکتا تھا۔ اُس وقت میرے اس بھائی نے ایک محبت کرنے والی ماں کی طرح مجھے اپنی گود میں لے لیا اور پھر شہادت تک اس فرض کو خوب نبھایا۔ مجھ میں بہادری اور خوداعتمادی پیدا کرنے کے لئے کئی طریقے اپنائے۔
دشمنوں کی طرف سے مسلسل دھمکیوں اور ایک بھائی کی شہادت کے بعد بھی آپ کے سامنے جب بھی کوئی شکار پور سے کہیں اَور شفٹ ہوجانے کا مشورہ دیتا تو آپ یہ کہتے ہوئے انکار کردیتے کہ اگر ہمارا خاندان یہاں سے چلاگیا تو احمدیت کا جھنڈا یہاں نہیں رہے گا۔
آپ کی شہادت پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ نے آپ کے والد محترم کو اپنے تعزیتی مکتوب میں لکھا: ’’آپ کے عزیز بیٹے اور جماعت کے عظیم باوفا خادم دین پیارے عزیزم مظفر احمد شرما صاحب کی شہادت کی اطلاع ملی … جانا تو ہر ایک نے ہے لیکن زندہ و جاوید ہوکر خدا کے حضور حاضر ہونا اصل زندگی ہے۔ اے مظفر! تم پر لاکھوں سلام کہ تُو نے اپنے نیک نمونہ سے ایک اَور زندہ مثال قائم کردی۔‘‘
حضور ایدہ اللہ نے آپ کی اہلیہ کو لکھا:
’’حضرت مسیح موعودؑ نے اس دَور میں جو روح پھونکی ہے اس کی زندہ مثال آپ ہیں۔ اور آپ کے میاں نے تو اپنا خون دے کر یہ مثال سچ کر دکھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس شہید پر لاکھوں سلام اور رحمتیں نازل فرمائے …‘‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں