محترم مظفر حسن صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍نومبر 2008ء میں مکرمہ ص۔ حسن صاحبہ کے قلم سے اُن کے والد مکرم مظفر حسن صاحب کا ذکر خیر شامل اشاعت ہے جو 31 جنوری 2007ء کو وفات پاگئے۔
محترم مظفر حسن صاحب 24مارچ 1920ء کو سیالکوٹ کے ایک گائوں کلاس والا میں محمد مقبول صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ تین بھائیوں اور دس بہنوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔ آپ کی پیدائش کے وقت گاؤں میں چیچک کی وبا پھیلی ہوئی تھی جس نے آپ کو اور آپ کی والدہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ نتیجتاً آپ کا ایک کان اور ایک آنکھ اس کی وجہ سے ضائع ہو گئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں مکمل ہوئی تو آپ کے والد اپنی فیملی کو چین لے گئے جہاں وہ کاروبار کرتے تھے۔ وہیں سے چند سال بعد ہانگ کانگ منتقل ہو گئے اور پھر سیالکوٹ میں مقیم ہوئے۔ اس طرح مکرم مظفر حسن صاحب نے میٹرک ہانگ کانگ میں کیا۔ اور مرے کالج سیالکوٹ سے F.Sc کرکے انجینئرنگ کی تعلیم کے لئے دہلی چلے گئے۔
آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے دادا حضرت حاجی عبدالعظیم صاحبؓ کے ذریعہ آئی تھی لیکن اُن کی اولاد میں سے کوئی بھی احمدی نہ ہوا جس کا انہیں شدید دکھ تھا۔ مکرم مظفر حسن صاحب جب دہلی پڑھنے گئے تو کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر ایک مکان کرایہ پر لے لیا۔ خوش قسمتی سے وہ سب دوست احمدی تھے جن کی دعوت الی اللہ سے آپ نے 1943ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ آپ کے احمدی ہونے پر آپ کے والدین نے آپ سے قطع تعلق کرکے تعلیمی خرچہ بند کر دیا۔ چنانچہ آپ کو تعلیم ادھوری چھوڑ کر ملازمت کرنا پڑی۔ ان حالات میں بھی آپ اپنی تنخواہ کا نصف والدہ کو بھیجتے رہے۔
آپ کی شادی آپ کی چچازاد سے 1946ء میں ہوئی۔ پاکستان بننے کے بعد آپ کراچی منتقل ہو گئے جہاں آپ کا نیول ہیڈکوارٹر میں تبادلہ کردیا گیا تھا۔ یہاں دس گیارہ سال کام کیا لیکن رشوت نہ لینے پر ترقی نہ ہو سکی۔ آخر دل برداشتہ ہو کر 1958ء میں ملازمت چھوڑ کر کویت میں ایک نجی تجارتی کمپنی میں ملازم ہوگئے جہاں قریباً چالیس سال تک رہے۔ اس دوران اپنی فیملی کو ربوہ میں رکھا۔
مکرم مظفر حسن صاحب حقوق اللہ اور حقوق العباد پوری جانفشانی سے ادا کرتے۔ باجماعت نماز کا خاص خیال رکھتے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد 1974ء میں لاہور چھائونی میں گھر بنایا اور پانچوں نمازیں مسجد میں ادا کرنے جاتے۔ تہجد کا بھی التزام کرتے اور لمبے سجدوں والے نوافل ادا کرتے۔ قرآن پاک کی تلاوت آخری دن تک جاری رہی۔ رمضان کے علاوہ شوال کے چھ روزے بھی رکھتے اور صدقہ و خیرات بکثرت کرتے۔
کویت میں لمبا عرصہ سیکرٹری مال کے فرائض انجام د ئیے اور ہر ماہ سب سے پہلی رسید اپنے چندہ کی کاٹتے۔ خلفاء کی ہر مالی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور ادائیگی میں بھی جلدی کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے حج اور عمرہ کی بھی توفیق عطا فرمائی۔ خاندان میں اکیلے احمدی تھے اور مخالفت کے باوجود سلسلہ سے مضبوطی سے منسلک رہے۔ تاہم اپنے والدین اور بہن بھائیوں کا بہت خیال رکھا۔ والدین کو حج کروا یا۔ بہنوں کی شادیاں کیں اور دیگر فرائض سرانجام دیئے۔ بے انتہا محبت کرنے والے وفا شعار شوہر تھے۔ دوسروں کے حقوق خوش دلی سے ادا کرتے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کا بھی بہت خیال رکھتے۔ سب بچوں کو بہترین تعلیم دلوائی۔ ہر رشتہ دار کی خیر وخبر رکھتے اور حسب ضرورت خاموشی سے مالی مدد بھی کرتے رہتے۔ کبھی کسی کی طرف سے زیادتی ہوتی تو کبھی ناراضگی کا اظہار نہ کرتے۔ بلکہ ایسا رویہ ہوتا کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔ دوستوں کے ساتھ انتہائی محبت اور خلوص کا تعلق تھا۔ غربا کا بہت خیال رکھتے۔ عید کے موقع پر اُن کے گھروں میں جاتے اور تحائف دیتے۔ ہمسایوں کا بھی بے حد خیال رکھتے۔
لاہور آنے کے بعد حلقہ جنوبی چھائونی کے گیسٹ ہاؤس کا تمام حساب کتاب ایک عرصہ تک سنبھالا۔ 1966ء میں وصیت کی اور تمام ادائیگی مکمل کرکے سرٹیفیکیٹ اپنی زندگی میں ہی حاصل کر لیا۔
آپ بہت مہمان نواز تھے۔ مہمان کسی بھی حیثیت کا ہوتا، بہت خاطر مدارات کرتے۔ دونوں کانوں کی سماعت سے محروم تھے۔ اس کے باوجود مہمان کے ساتھ بیٹھے رہتے۔
نہایت دیانتدار تھے۔ کمپنی کے مالک نے اعتماد کے ساتھ لاکھوں ڈالر کا کام آپ کے حوالے کیا ہوا تھا۔ کئی رشتہ داروں نے دستخط کرکے چیک بکس دی ہوئی تھیں۔ آپ ہر ایک کا مکمل حساب رکھتے۔ انتظامی صلاحیت بھی بھرپور تھی۔ اپنا کام خود کرنے کے عادی تھے۔ اپنی اہلیہ کی وفات کے بعد گیارہ سال کا عرصہ بڑے صبر سے گزارا۔ اپنی کسی تکلیف یا بیماری کا احساس دوسروں کو نہ ہونے دیتے۔ شگفتہ مزاجی اور مزاح آپ کی شخصیت کا اہم پہلو تھا۔ ادب اور شاعری سے بھی لگاؤ تھا۔ خود بھی شعر کہتے تھے اور دوسروں سے بھی سن کر محظوظ ہوتے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں