محترم منیر احمد شیخ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26 نومبر 2010ء میں محترم منیر احمد شیخ صاحب شہید (سابق امیر ضلع لاہور) کا ذکرخیر مکرم سیف اللہ وڑائچ صاحب کے قلم سے شائع ہوا ہے۔ قبل ازیں 28 مارچ 2014ء کے ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ کے اسی کالم میں شہید مرحوم کا ذکر کیا جاچکا ہے۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ میرا تعلق محترم منیر احمد شیخ صاحب سے 43 سال پرانا تھا۔ آپ بہت دعاگو، تہجد کے پابند، ہر سال اعتکاف بیٹھنے والے اور نیک مشورے دینے والے بزرگ تھے۔ آپ کے سسر محترم راجہ علی محمد صاحب نے میرے والد محترم چودھری عنایت اللہ صاحب کو اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا اور اس پہلو سے بھی میرا محترم منیر صاحب سے بہت قریبی اور محبت کا تعلق تھا۔ آپ بہت اعلیٰ طبیعت کے مالک تھے۔ وعدہ کی پاسداری، تحمّل مزاجی اور دوسروں کا خیال رکھنا آپ کی فطرت میں داخل تھا۔ آپ کی ساس صاحبہ لاہور میں مقیم تھیں جبکہ آپ بسلسلہ ملازمت ڈیرہ غازیخان میں قیام پذیر تھے۔ چنانچہ آپ نے اپنے ایک بیٹے کو اُن کی خدمت کے لئے لاہور میں رکھا ہوا تھا۔
آپ جہاں بھی تعینات ہوئے ہر جگہ آپ کے احمدی ہونے کا علم ہوجاتا اور یہ بھی مشہور تھا کہ آپ غلط سفارش نہیں مانتے اور رشوت کو حرام سمجھتے ہیں۔ چنانچہ جب آپ ریٹائرڈ ہوئے تو صرف پنشن پر ہی گزربسر رہی۔ بعد میں جب آپ کی ساس صاحبہ کی جائداد میں سے آپ کی اہلیہ کو حصہ ملا تو پھر گارڈن ٹاؤن میں کوٹھی خریدی۔ آپ کی دیانتداری اور منصف مزاجی ہی تھی کہ ملازمت سے پنشن ہونے کے بعد آپ کو نَیب کا جج بنادیا گیا۔ پھر اس ملازمت میں توسیع دی گئی۔ جب توسیع ختم ہوئی تو آپ کو نَیب میں ہی بطور Consultant خدمات سرانجام دینے کا موقع مل گیا۔ آپ کی دیانت اور قابلیت کی مخالف بھی تعریف کرتے تھے۔
آپ کی شہادت سے قریباً ایک ماہ قبل مَیں اپنے ایک دوست (جو صوبائی اسمبلی کے ممبر ہیں) کا ایک کیس دینے محترم شیخ صاحب کے پاس گیا۔ ایک لاکھ بیس ہزار روپے کی رقم اور کیس کی فائل پیش کرتے ہوئے میرے دوست نے کہا کہ عدالت سے تاریخ ملنے پر باقی فیس بھی دیدیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ مَیں صرف ایک دفعہ ہی فیس لیتا ہوں اور کیس کا فیصلہ ہونے تک کے سارے اخراجات اس میں شامل ہوتے ہیں۔ بہرحال آپ نے ساری فائل کا مطالعہ کیا اور کیس کی تیاری کی لیکن اتفاق تھا کہ کیس لاہور کی بجائے راولپنڈی ہائی کورٹ میں لگ گیا۔ میرے دوست نے آپ سے پوچھا کہ کیا آپ راولپنڈی چلے جایا کریں گے۔ آپ نے فرمایا کہ ایک تو میرے پاس وقت نہیں دوسرا آپ کو لاہور کا وکیل مہنگا پڑے گا کیونکہ آئے دن تاریخوں پر جانا، جہاز اور ہوٹل کا کرایہ وغیرہ اخراجات ہوں گے۔ اس لئے کسی مقامی وکیل کو کرلیں۔ آپ کا دیانتدارانہ مشورہ سن کر میرے دوست بہت متأثر ہوئے اور بار بار اس کا اظہار کیا۔ مَیں نے کہا کہ فیس میں سے کتنی رکھیں گے اور کتنی واپس کریں گے۔ آپ نے یہ فیصلہ بھی مجھ پر چھوڑ دیا حالانکہ آپ کیس کی تیاری بھی کرچکے تھے اور فائل زیرمطالعہ تھی۔
شاید آپ کو اپنی شہادت کا علم ہوچکا تھا کیونکہ صرف ایک روز قبل آپ نے وہ فائل اور ایک لاکھ بیس ہزار روپے اپنی اہلیہ کو دے کر فرمایا کہ وہ مجھ کو واپس کردیں۔ آپ کی اہلیہ بھی حیران ہوئیں کیونکہ اس سے قبل آپ نے کبھی اُن کے ذریعہ کوئی فائل یا رقم کسی کو نہیں دلوائی تھی۔ چنانچہ جب آپ کی شہادت کے بعد میرے دوست بھی تعزیت کے لئے شہید مرحوم کے گھر پہنچے تو فائل اور رقم دیکھ کر حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ شیخ صاحب کی شہادت کے بعد مَیں نے سوچا تھا کہ رقم کون دے گا اور اب تو صرف فائل کی واپسی کا سوچ رہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ازخود بیس ہزار کی رقم چھوڑ دی۔
گھریلو زندگی میں وہ نیک خصلت انسان تھے۔ بیوی کے ساتھ آپ کا حسن سلوک قابل رشک تھا۔ شفیق باپ تھے۔ اپنے یا سسرال کے اکثر رشتہ دار کہیں سے بھی آتے تو قیام آپ کے ہاں ہی ہوتا۔چنانچہ گھر میں رشتہ داروں کا جمگھٹا سا لگا رہتا۔ آپ پدرانہ شفقت سے ہر ایک کے مسائل حل کرتے اور دیگر ضروریات کا خیال رکھتے۔ ہر ملنے والے کو دروازہ پر چھوڑنے آتے۔
جب آپ خیرپور میں تعینات تھے تو دو احمدیوں کا کیس آپ کے پاس آیا۔ آپ نے اُن کو ریٹائرنگ روم میں بلایا اور کہا کہ ’سب لوگ جانتے ہیں کہ تم بھی اور مَیں بھی احمدی ہیں۔ یہ بڑی بے عزّتی کی بات ہے کہ تم دونوں احمدی ہوکر جھگڑ رہے ہو۔ اگلی تاریخ تک آپس میں صلح کرلو ورنہ دونوں کو سزا دوں گا‘۔ یہ تھی تو دھمکی ہی لیکن کام کرگئی اور انہوں نے راضی نامہ کرلیا۔
آپ کو جماعت سے والہانہ محبت تھی۔ جب آپ سیالکوٹ میں تعینات تھے تو آپ نے اُس مکان کا دروازہ خرید لیا جس میں حضرت مسیح موعودؑ اپنی ملازمت کے دوران قیام فرما رہ چکے تھے۔ یہ دروازہ آپ کے ڈرائنگ روم کے سامنے ایک شیشے میں محفوظ ہے۔
جب آپ امیر مقرر ہوئے تو عدالتی کاموں سے فراغت ہوتے ہی سیدھے مسجد تشریف لے آتے۔ آپ نے یہ بھی کہہ دیا ہوا تھا کہ کوئی بھی احمدی جب بھی ملنا یا فون کرنا چاہے تو اجازت کی ضرورت نہیں۔ جب دہشتگردوں نے حملہ کیا تو لوگوں کے مشورہ کے باوجود آپ نے محفوظ مقام پر جانے کی بجائے ایک بہادر سپہ سالار کی طرح اپنے سینہ پر گولی کھانے کو ترجیح دی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں