محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2 جولائی 2010ء میں مکرم اظہار احمد بزمی صاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مولانا صاحب سے خاکسار کا پہلا تعارف اس وقت ہوا جب 1992ء میں مربیان کے ریفریشر کورس کے سلسلے میں مرکز سلسلہ ربوہ حاضر ہوا۔ خلافت لائبریری میں ہماری کلاس ہوتی تھی۔ صبح کے وقت، مَیں خلافت لائبریری کے دروازہ کے قریب کھڑا تھا کہ اچانک حضرت مولوی صاحب سے سامنا ہو گیا۔ مَیں نے سلام عرض کیا تو آپ نے نام پوچھا اور پھرپوچھا: آپ مربی ہیں؟ میں نے عرض کیا:جی۔ فرمایا: اپنے لباس کا خیال رکھا کریں۔
یہ فرما کر آپ اپنے کمرہ کار میں تشریف لے گئے اور مَیں اپنے بغیر استری سلوٹ زدہ کپڑوں اور ٹوپی کو دیکھتا رہا جو میرے سر کی بجائے میرے ہاتھ میں تھی۔ دو دن کے بعد دوبارہ سلام کرنے کی جرأت کی تو نہایت شفقت سے فرمانے لگے: اس دن اگر میری بات سے تکلیف پہنچی ہو تو معذرت! مگر یہ یاد رکھیں کہ مربی عوام الناس میں سے نہیں، چلتے پھرتے فرق نظر آنا چاہئے کہ وہ سلطان القلم کا سلطان نصیر ہے۔
اس کے بعد خاکسار جب مرکز سلسلہ آتا حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتا۔ آپ ہرملاقات میں پوچھتے کہ اب تقرری کہاں ہے اور وہاں کس کس مسلک کے لوگ ہیں؟ کوئی بڑی لائبریری موجود ہے یا نہیں؟ سکردو میں تقرری کے کچھ عرصہ بعد جب خاکسار ملاقات کے لئے حاضر ہوا تو آپ نے تفصیلی حالات دریافت کرکے فرمایا کہ آپ شعر و شاعری سے شغف رکھتے ہیں اس لئے ادبی تنظیموں سے روابط بڑھائیں مگر احتیاط سے قدم رکھیں اور پھر ذاتی تجربات اور رابطہ کرنے کے مختلف طریقوں پر گفتگو فرمائی۔ آپ کی ہدایات سے خاکسار نے بہت فائدہ اٹھایا اور صاحب علم لوگوں سے بات کرنے کے مواقع پیدا ہوئے۔ بعد میں جب چوہدری محمد علی صاحب مضطر عارفی کا شعری مجموعہ ’’اشکوں کے چراغ‘‘ شائع ہوا۔ تو خاکسار نے اس کی چند کاپیاں منگوا کر سخن فہم دوستوں کو تحفۃً پیش کیں اور ہمارے محسن دوست جناب پروفیسر حشمت علی کمال صاحب الہامیؔ نے اس شعری مجموعے پر تفصیلی تبصرہ تحریر فرمایا جس میں کتاب کا نام عطا فرمانے کے سلسلہ میں حضور انور
ایدہ اللہ تعالیٰ کا بھی بطور خاص ذکر کیا۔ یہ تبصرہ دو اقساط میں K-2 اخبار میں شائع ہوا جسے بعد میں روزنامہ ’’الفضل‘‘ نے بھی شائع کیا۔ حضور انور نے اسے پڑھ کر الہامی صاحب کو اپنا سلام بھجوایا۔ محترم مولانا صاحب نے تراشہ وصول کرکے رقم فرمایا:
’’نہایت قیمتی تراشہ ابھی موصول ہوا اور دل سے آپ کی ذرہ نوازی کو دیکھ کر بہت دعا نکلی۔ تاریخ کے لئے اسے ریکارڈ خاص میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔ امید ہے آئندہ بھی یہ قلمی مجاہدہ جاری رکھ کر ممنون احسان فرمائیں گے۔ سکردو میں نور بخشی فرقہ کو خاص اہمیت حاصل ہے کیا ان کا کوئی مستند لٹریچر مہیا فرمایا جا سکتا ہے۔ بانیٔ فرقہ کی عربی کتاب ’’مشجرالاولیاء‘‘ میرے پاس موجود ہے۔ نئی مستند کتاب اگر شائع ہوئی ہو اور سلسلہ کے لئے مفید بھی ہو وہ درکار ہے۔‘‘
’’مشجرالاولیاء‘‘ وہ کتاب ہے جو خود نور بخشی مسلک کے اکثر اہل علم افراد کے پاس بھی موجود نہیں اور انتہائی کوشش اور تلاش کے باوجود ہمیں سکردو میں بھی نہیں مل سکی۔ جبکہ حضرت مولوی صاحب کے پاس یہ کتاب موجود تھی۔
حضرت مولوی صاحب سے آپ کی آخری بیماری میں ملاقات ہوئی تو آپ نے اپنی تازہ کتاب ’’برطانوی پلان اور ایک فرضی کہانی‘‘ کی دو درجن کاپیاں عطا فرمائیں اور ساتھ تاکید فرمائی کہ اس بظاہر چھوٹی سی کتاب کے اہم اور قیمتی حوالوں کے لئے میںنے بہت محنت کی ہے اور امید کرتا ہوں کہ آپ یہ کتاب صرف ان خواص کو دیں گے جن کی ذاتی لائبریریاں ہوں اور وہ کتاب کی حرمت سے واقف ہوں۔ کتاب کی تقسیم میں بے شک زیادہ وقت لگ جائے مگر کتاب ضائع نہ ہو۔
حضرت مولوی صاحب کے دل میں خاص طور پر دعوت الی اللہ کے لئے جو جذبہ تھا وہ ہزاروں داعیان الی اللہ کے لئے مشعل راہ ہے۔ آپ جہاں کسی کو دعوت الی اللہ کی کوشش کرتے ہوئے دیکھتے فوراً علمی اور ذہنی راہنمائی کے لئے تیار ہو جاتے۔ مجھ جیسے کئی ناتجربہ کار لوگ آپ کی راہنمائی سے زندگی پارہے تھے۔ جو آپ کے دارفانی سے کوچ کر جانے کے بعد ایک شفیق اور تجربہ کار راہنما سے محروم ہو گئے ہیں۔ میرے لئے آپ کی شخصیت اور مقام و مرتبہ پر قلم اٹھانا ممکن نہیں۔ صرف یہ عرض کروں گا جو ایک عرب شاعر نے کسی قبیلے کے سردار کی وفات پر کہا تھا: (ترجمہ): اے معزز شخص! تیری وفات سے قبل میں نے کبھی گمان بھی نہیں کیا تھا کہ کبھی ستارے بھی زمین کے اندر چھپ سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں