محترم مولانا محمد احمد جلیل صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18 ستمبر 2006ء میں شامل اشاعت ایک مضمون میں پروفیسر ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب نے اپنے سسر محترم مولانا محمد احمد جلیل صاحب کا تفصیلی ذکرخیر کیا ہے۔

پروفیسر پرویز پروازی صاحب

محترم مولانا صاحب کے بارہ میں ایک مضمون قبل ازیں ہفت روزہ ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 26؍جنوری 2007ء کے ڈائجسٹ کی زینت بن چکا ہے۔
محترم مولانا صاحب ایک نہایت مسکین طبع آدمی تھے۔ دوسروں کے پاسِ خاطر کی خاطر قربانیاں دینے والے اور ہر تکلیف کو اپنے نفس پر جھیل جانے والے۔ میں نے اپنے تقریباً پینتالیس سالہ تعلق صہری میں انہیں ایک بار بھی کبیدہ خاطر یا ملول نہیں پایا۔ یہ نہیں کہ ان پر حوادث زمانہ کا اثر نہیں ہوتا تھا، ہوتا تھا مگر وہ اتنے وسیع الحوصلہ تھے کہ ہر بات کو خندہ پیشانی سے جھیل جاتے تھے۔ صبروتحمل کا کامل نمونہ تھے۔ ان کی پچانوے سالہ زندگی کا نصف میری آنکھوں کے سامنے گزرا اور میں نے انہیں صرف ایک بار آبدیدہ پایا جب اُن کے چھوٹے بھائی کی وفات ہوئی۔
مولانا صاحب کے ساتھ میرا پہلا تعارف ان کے قضاء کے ایک فیصلہ کے سلسلہ میں ہوا۔ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے ساتھ خدمت کررہا تھا اور اُن کے خلاف قضاء میں ایک مقدمہ کسی صاحب نے دائر کررکھا تھا جو قادیان کے زمانہ سے چل رہا تھا۔ میاں صاحب کسی کام میں ضامن تھے اس لئے مسئلہ یہ تھا کہ ضامن ہر حال میں ضامن ہوتا ہے یا حالات کے بدل جانے سے ضامن کی ضمانت ختم ہوجاتی ہے؟ فیصلہ حضرت میاں صاحب کے خلاف صادر ہوا کہ بطور ضامن ان کو پوری ذمہ داری قبول کرنی چاہئے۔ یہ فیصلہ مولانا محمد احمد جلیل نے کیا تھا۔ حضرت میاں صاحب نے اپیل کی اور مرافعہ میں یہ فیصلہ قائم نہ رہا۔ آپؓ اس فیصلہ سے بہت پریشان تھے مگر ایک بار بھی اس فیصلہ یا مولانا جلیل صاحب کے خلافِ احترام کوئی بات آپؓ کے منہ سے نہ سنی۔ بلکہ انہی دنوں مجھ سے دفتر میں ایک غلطی ہوئی توحضرت میاں صاحب نے ایک یک رکنی کمیشن تحقیقات کے لئے قائم کیا۔ یہ کمیشن مولانا جلیل صاحب پر مشتمل تھا۔ یعنی حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کو مولانا کی دیانت اور اصابت رائے پر پورا اعتبار تھا اور اپنے خلاف فیصلہ دینے کی وجہ سے ان کے دل سے سلسلہ کے کارکن کا احترام زائل نہیں ہوا تھا۔ اس کمیشن نے تحقیقات کے بعد نتیجہ نکالا کہ کارکن مذکور سے پانچ روپے کی رقم دوبار درج ہوگئی ہے اس میں کسی بددیانتی کا امکان نہیں۔
حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ کا طریق یہ تھا کہ سلسلہ کے علماء کے نام بغیر حضرت کا سابقہ استعمال کئے نہ لیتے تھے۔ ’’حضرت مولانا جلیل صاحب‘‘ فرما کر ان کے بارہ میں بات کرتے سنا۔ جبکہ مولانا کا اپنا رد عمل یہ ہوتا تھا کہ ایسی بات سنتے تو اور زیادہ استغفار فرماتے تھے اور کہتے تھے کہ دوسروں کا حسن ظن ہے کہ وہ اس طرز پر تخاطب روا جانتے ہیں، حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ کی ولایت کا مرتبہ ایسا ہے کہ آدمی کو ان کی بات کی لاج رکھنے کے لئے اپنی اصلاح کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔
محترم مولانا جلیل صاحب بہت زندہ دل اور مہمان نواز تھے۔ اپنے شاگردوں سے ان کی سطح پر اتر کر بات کرتے تھے اور انہیں کبھی اس بات کا احساس نہیں ہونے دیتے تھے کہ ان کا استاد علمی لحاظ سے کس بلند مرتبہ کا عالم ہے۔ علمی مسائل پر بحث مباحثہ کے لئے علماء کرام سے بھی ان کی صحبتیں رہتی تھیں۔ ان کے تبحر علمی کا ایک عالم قائل تھا مگر خود انہیں اپنے علم کی نمائش مقصود نہ تھی۔ اگر کسی مسئلہ پر انہیں اپنے سے کم عمر لوگوں کے لئے استمداد کرنا ہوتا تو بغیر کسی جھجک کے کرتے تھے۔ تفسیر القرآن کے انگریزی ترجمہ کے سلسلہ میں آپ مدتوں مکرم و محترم ملک غلام فرید صاحب کے ساتھ منسلک رہے۔ پیر صلاح الدین صاحب نے قرآن کا انگریزی ترجمہ کیا تو مولوی صاحب کی عملی اعانت ان کے شامل حال رہی۔ میں نے خود اپنے لئے قرآن کریم کا اردو ترجمہ حبل الورید کے نام سے کیا تو قبلہ پاکستان سے اپنے دیگر مشاغل سے وقت نکال کر بھی اس ترجمہ پر نظر ثانی فرماتے رہے۔ یہ سب صرف ثواب کی خاطر تھا، اس میں کوئی دنیاوی فائدہ انہیں مطلوب نہ تھا۔
مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ شاگرد بھی آجاتے تو خاطر ضرور کرتے۔ بعض اوقات ہاسٹل کے کسی بیمار طالب علم کے لئے کہہ کر کوئی پرہیزی کھانا تیار کرواتے۔ افریقہ کا ایک چھوٹا سا بچہ جامعہ میں تعلیم حاصل کرنے آیا تو آپ اس بچے کو کئی مہینے تک اپنے گھر لاکر ڈبل روٹی کا کھانا کھلاتے رہے کہ ابھی یہ بچہ ہے یہاں ہاسٹل کے کھانے سے مانوس نہیں کہیں بیمار نہ پڑے۔ یہ ساری خاطرداری اس لئے ممکن ہوئی کہ آپ کی اہلیہ بھی اس خوبی میں آپ کی دست راست تھیں۔
صلہ رحمی بھی قبلہ کی شخصیت کا خاص وصف تھا۔ دورپار کے عزیزوں سے بھی اسی لطف اور محبت سے سلوک کرتے جیسے اپنے قریبی رشتہ داروں سے کرتے تھے۔ ان کے سسرال والے بھی ان کی محبت کے مورد رہتے ۔ آپ کی اہلیہ کے بہن بھائی سب نے احمدیت بعد میں قبول کی اور یہ سب کچھ مولانا صاحب کے حسن سلوک کی وجہ سے ممکن ہوا۔
مولانا صاحب کو اپنے بچوں کی تعلیم میں بہت شغف تھا۔ سب بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی۔ آپ کا علمی اور ادبی ذوق بھی قابل رشک تھا۔ میں اپنے کئی مضمون آپ کو دکھاتا تو زبان وبیان کی بہت سی غلطیوں کی درستی ہوجاتی۔ میں نے اردو کے کئی محاورے ان سے سیکھے۔ عربی تو خیر ان کا مضمون تھا، فارسی زبان و ادب پر بھی ان کی نگاہ بڑی گہری تھی۔ حوصلہ افزائی کا انداز بھی ان کا اپنا تھا اور نرالا تھا اور سرزنش کا بھی۔ قرآن کریم کے ترجمہ کے سلسلہ میں میرا ان سے بہت قریبی ذہنی رابطہ رہا لیکن کہیں انہوں نے یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ مجھے عربی زبان و بیان اور محاورہ پر پوری دسترس نہیں ہے اور ترجمہ کے لئے صرف ایک زبان پر دسترس کافی نہیں ہوتی۔ میرے سامنے اردو اور انگریزی کے بعض تراجم کے علاوہ فارسی کے بعض تراجم بھی تھے۔ مولانا ان کے اس کام پر بھی بڑی باریک بینی سے نگاہ رکھتے تھے۔
مولانا کی انگریزی کی باقاعدہ تعلیم تو زیادہ نہ تھی لیکن انگریزی لغت پر اتنی گرفت تھی کہ مشکل سے مشکل انگریزی لفظ کے ہجے اورمعانی انہیں آتے تھے۔ انگریزی تفسیر کے ساتھ منسلک تھے اور تفسیر چھپتی تو اس کے پروف پڑھنا بھی ان کی ذمہ داری تھی۔ ہم نے ملک غلام فرید صاحب کو یہ کہتے سنا ہے کہ مولانا صاحب کو انگریزی مترادفات پر بھی کمال کا عبور حاصل ہے۔ اس کا ایک ثبوت پیر صلاح الدین صاحب کا ترجمہ قرآن کریم ہے کیونکہ پیر صاحب مولانا صاحب پر بہت انحصار کرتے تھے اور ان کی تجویز کو کبھی رد نہیں کرتے تھے مگر آسانی سے قبول بھی نہیں کرتے تھے۔ شعرفہمی بھی ان کا خاصہ تھی۔ اکثر شعراء کے ساتھ ان کا اٹھنا بیٹھنا تھا۔
آپ کی طبیعت میں انسانی ہمدردی تو تھی ہی جانور بھی ان کی محبت سے محروم نہیں رہتے تھے۔ ایک بار جامعہ کے احاطہ کی باڑ کے ساتھ ایک کتیا نے بچے دئے تو آپ بارش میں دودھ کا برتن لے جاکر اُسے دودھ پلایا کرتے تھے کہ اس موسم میں یہ بیچاری اپنے بچوں کو چھوڑ کر رزق کی تلاش میں کہاں ماری ماری پھرے گی۔
آپ کی نیند بہت ہلکی تھی مگر نیند پر قابو بھی بڑا تھا۔ بیٹھے بیٹھے سوجاتے تھے۔ شب زندہ دار آدمی تھے۔ خداجانے کس وقت سوتے تھے اور کس وقت نوافل کے لئے اٹھتے تھے مگر گھر والوں نے رات کے پچھلے پہر انہیں ہمیشہ نماز کی حالت میں پایا۔ ہمیشہ باوضو رہتے تھے اور اس میں بہت اہتمام و التزام رکھتے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں