محترم مولوی بشیر احمد قمر صاحب

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، روزنامہ الفضل انٹرنیشنل جون 2025ء)
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 22؍مارچ2014ء میں مکرم عبدالباری قیوم شاہد صاحب کے قلم سے محترم مولوی بشیر احمد قمر صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔

مولانا بشیر احمد قمر صاحب

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ مَیں ۱گست 1984ء میں اکرا (غانا) پہنچا۔ چند روز بعد محترم مولوی بشیر احمد قمر صاحب بھی وہاں پہنچے۔ آپ تیسری مرتبہ غانا میں تشریف لائے تھے اور آپ کا تقرراپرویسٹ ریجن کے انچارج مربی کی حیثیت سے ریجن کے صدرمقام واؔ کے مشن ہاؤس میں ہوا تھا۔ آپ قادیان میں میرے بڑے بھائی حمیدالدین احمد صاحب کے کلاس فیلو رہے تھے۔ دعا کے حوالے سے آپ کی مرتبہ کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں آپ کی خواہش پر مَیں نے معاونت کی تھی اس لیے آپ سے مل کر پرانی بہت سی یادیں تازہ ہوگئیں۔
احمدیہ مشن کے واؔ میں قائم ایک ہائی سکول کو ترقی دے کر حکومت نے ٹیچرٹریننگ کالج کا درجہ دے دیا تھا۔اس میں اسلامیات، عربی اور بائبل پڑھانے نیز کالج کی نوتعمیر شدہ مسجد میں امامت و خطیب کے فرائض سرانجام دینے کے لیے خاکسار کو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے تین سال کے لیے وہاں بھجوایا تھا۔ چنانچہ مجھے خوشی ہوئی کہ اس عرصے میں مجھے محترم قمر صاحب کی رفاقت میں رہ کر کام کرنے کا موقع ملے گا۔
اکرا میں قریباً دو ہفتے گزارنے کے بعد ایک دوپہر گیارہ بجے بس کے ذریعے مَیں اور مولوی صاحب روانہ ہوئے۔ دو سیٹیں ملیں جن میں سے ایک درمیان میں تھی جو زیادہ آرام دہ تھی۔ دوسری سیٹ آخری رَو میں تھی جو بےآرام کرنے والی تھی۔ مولوی صاحب نے مجھے درمیان والی سیٹ پر بیٹھنے کو کہا اور خود میرے باربار اصرار کے باوجود آخری رَو والی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ رش اس قدر تھا کہ ہلنا جلنا بھی ممکن نہ تھا۔ دورانِ سفر کئی بار موسلادھار بارش بھی ہوتی رہی۔ بس اگلی صبح آٹھ بجے واؔ پہنچی۔ مشن ہاؤس کا بس سٹاپ سے فاصلہ چند منٹ کا تھا۔
کالج میں رہائش ملنے تک مجھے مشن ہاؤس میں ہی رہنا تھا۔ ہم اکٹھے کھاتے پیتے، نمازیں ادا کرتے اور تربیتی کاموں میں آپ کی معاونت کا مجھے موقع ملتا رہتا۔ آپ میرے کھانے کا خرچ بھی برداشت کرتے رہے۔ جب میرا الاؤنس محترم امیر صاحب بھجواتے تو مَیں مولوی صاحب کی خدمت میں پیش کردیتا۔ آپ اس میں سے برائے نام رقم کھانے کے خرچ کے طور پر قبول فرماتے اور باقی رقم مجھے واپس کردیتے۔ یہ سلسلہ چھ ماہ تک جاری رہا اس کے بعد مجھے کالج میں رہائشگاہ مل گئی۔ آپ کی نوازشات بعد میں بھی جاری رہیں۔ کوئی اچھی چیز پکاتے تو مجھے بھی بھجواتے۔ ہر ماہ تین چار دن مجھے ملیریا ہوجاتا، آپ کو علم ہوتا تو دوڑے چلے آتے اور ہر ممکن تیمارداری کرتے، بارہا پرہیزی کھانا پکواکر بھجواتے۔ عید کے موقع پر شیرخورما تیار کرتے تو کالج کے پرنسپل مسعود شمس صاحب اور مجھے بھی مدعو کرتے اور ہم اپنے وطن اور فیملی سے دُور اس طرح عید کا لطف حاصل کرتے۔
کالج میں طلبہ کے لیے ہفتے میں دو دن لیکچرز ہوتے اور سوالات کے جواب بھی دیے جاتے۔ اس مقصد کے لیے ہر مہینے دو بار آپ کو بھی مدعو کیا جاتا۔ آپ ضرور تشریف لاتے اور طلبہ کو مطمئن کرتے۔ موقع کی مناسبت سے لطائف بھی سناتے۔ آپ کے ساتھ کئی اسفار کا موقع بھی ملا۔ غانین احباب آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ آپ ایک شریف النفس، دعاگو، مستجاب الدعوات، بلند کردار، خلافت احمدیہ کے فدائی اور عالم باعمل تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی نظم ؎

دیار مغرب سے جانے والو، دیار مشرق کے باسیوں کو

جب اخبار میں شائع ہوئی تو ایک روز اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے مجھ سے یہ نظم سنانے کی فرمائش کی۔ مَیں نے ترنم سے پڑھ کر سنائی تو دل بھر آیا۔ آپ کی طرف دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے بھی آنسو بہ رہے تھے۔
1987ء میں میری واپسی ہوئی تو آپ سے الوداعی ملاقات نہ ہوسکی جس کا افسوس تھا۔ کچھ عرصے بعد آپ کا خط ملا جس میں ملاقات نہ ہونے پر افسوس کا اظہار بھی تھا اور یہ بھی لکھا تھا کہ ’’انسان بشری کمزوریوں کا مجموعہ ہے، ہم کچھ عرصہ اکٹھے رہے ہیں، مجھ سے کئی کوتاہیاں ہوئی ہوں گی اور آپ کو تکلیف ہوئی ہوگی، درخواست ہے کہ ان کو معاف کردیں اور پردہ پوشی کی دعا کریں۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں