محترم میاں محمد صدیق بانی صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍اکتوبر2008ء میں ایک مضمون میں مکرم شریف احمد بانی صاحب نے اپنے والد محترم میاں محمد صدیق بانی صاحب کی بعض مالی قربانیوں کا اختصار سے ذکر کیا ہے۔
حضرت مصلح موعود نے جلسہ سالانہ قادیان کے موقعہ پر 26 دسمبر 1935ء کو تحریک جدید کے بارہ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ: ’’احباب کو تحریک جدید میں حصہ لینے کی نصیحت کرتا ہوں۔ یہ نفلی چندہ ہے اور ہر شخص کی مرضی پر منحصر ہے۔پس جو دے سکتا ہے دے اور اپنے ایمان کی خاطر دے۔ مجھ پر اس کاکوئی احسان نہیں۔ میں تو وہ انسان ہوں کہ بچپن میں اپنی ذاتی ضرورت کے لئے میں نے کبھی حضرت مسیح موعود سے بھی کچھ نہیں مانگا۔ مجھے جب کوئی ضرورت پیش آتی میں خاموش ہو جایا کرتا۔ حضرت مسیح موعودؑ سمجھ جاتے کہ اسے کوئی ضرورت ہے۔ چنانچہ آپ ہماری والدہ صا حبہ سے کہتے کہ اس کو کوئی ضرورت معلوم ہوتی ہے۔ پتہ لو، یہ کیا چاہتا ہے۔ پس جن سے مانگنے کا مجھے حق تھا میں نے تو ان سے بھی کبھی نہیں مانگا۔ کجا یہ کہ آپ لوگوں سے اپنے لئے مانگوں۔ بعض مخلص احباب مجھ سے اکثر دریافت کرتے رہتے ہیں کہ آپ کے لئے ہم کیا تحفہ لائیں میں خاموش رہتا ہوں اور کچھ نہیں کہتا۔ بعض باربار پوچھتے ہیں کہ ہم فلاں چیز لانا چاہتے ہیں کیسی لائیں۔ تو بھی میں جواب نہیں دیتا کہ ان پر چٹی پڑ جائے گی توپوچھنے کے باوجود میں دوستوں کو نہیں بتاتا کہ وہ کیسی چیز لائیں۔ ایک دفعہ ایک دوست میرے پیچھے پڑگئے کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ کی موٹر کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوا کرے میں مفت مہیا کروں۔ میں نے بہت ردّ کیا۔ لیکن وہ اپنے اصرار میں بڑھتے گئے۔ آخر ان کے اصرار سے محبور ہو کر میں نے کہا۔ اچھا میں آپ کو چیزوں کا آرڈر بھجوا دیا کروں گا۔ آپ چاہیں تو مفت دے سکتے ہیں۔ چاہیں تو قیمت وصول کرلیا کریں۔ وہ دوست مجھے موٹر کے متعلق اشیاء مہیا کر دیتے ہیں۔ لیکن باوجود اس کے کہ ان کے شدید اصرار پر میں نے آرڈر بھجوانا منظور کیا تھا اور وہ پھر اپنی طرف سے بطور تحفہ چیزیں بھجوا دیتے ہیں۔ لیکن میرے دل پر اب بھی اس کا بوجھ ہی رہتا ہے اور میں کوشش کرتا ہوں کہ جس قیمت کو وہ روپیہ کی شکل میں نہیں لیتے دعاؤں کی صورت میں ادا کردوں۔ اس کے سوا میری زندگی میں اور کوئی واقعہ نہیں کہ کسی کے کہنے پر بھی میں نے کوئی چیز طلب کی ہو‘‘۔ (انوارالعلوم جلد14 صفحہ140)
محترم ملک صلاح الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ’’خاکسار 15؍اپریل 1941ء تک قریباً چار سال حضرت مصلح موعود کی خدمت میں رہا۔ اس سارے عرصہ میں دیکھا کہ حضور کی خدمت میں موٹر کے لئے مطلوبہ ٹائر وغیرہ ہمیشہ محترم میاں محمد صدیق صاحب بانی کی طرف سے ہدیۃً کلکتہ سے آتے تھے‘‘۔
یہ حضرت مصلح موعود کی دعائیں ہی تھیں جن کی بدولت میاں محمد صدیق صاحب بانی پر اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضل ہوئے۔ مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ خاکسار اس بات کا عینی شاہد ہے کہ بعض دفعہ انتہائی نامساعد حالات میں اللہ تعالیٰ اس طرح مصیبت سے نکال لیتا تھا جو بظاہر ناممکن معلوم ہوتا تھا اور ایسا بارہا ہوا۔ 1946ء میں کلکتہ میں بڑے ہولناک ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ فسادیوں نے ہماری دکان اور مکان کو لوٹنے کے بعد آگ لگادی۔ ایک جگہ پناہ لے کر ہم چھپے تو فسادیوں نے ہمیں ہر طرف سے گھیرے میں لے لیا اور بظاہر بچنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر غیبی امداد بھیج دی اور ہم وہاں سے نکل کر محفوظ جگہ آگئے۔ اگرچہ والد صاحب زخمی ہوئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جان کی حفاظت فرمائی اور آپ نے لمبی عمرپائی۔ وسیع کاروبار اور مکان وغیرہ تباہ ہو چکا تھا اور صرف تن کے لباس کے ساتھ ہم لوگ گھر سے نکلے تھے۔ لاکھوں روپیہ کا قرض ہمارے ذمہ تھا جس کو ادا کرنا ہماری اخلاقی ذمہ داری تھی۔ والد صاحب نے نئے سرے سے معمولی پیمانہ پر دوبارہ کاروبار شروع کیا اور قرض خواہوں کی ایک ایک پائی ادا کردی۔ میرا ایمان ہے کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوا جو حضرت مصلح موعود کی دعاؤں سے ہم پر نازل ہوا۔
مکرم سید نور عالم صاحب ایم اے سابق امیر جماعت احمدیہ کلکتہ نے آپ کے بارہ میں لکھا کہ آپ غرباء کے سچے دوست اور تکلیف زدہ بیوگان اور یتامیٰ کے ہمدرد اور سہارا تھے اور درویشان قادیان کی خدمت کے لئے ہمہ تن وقف تھے۔ عظیم الشان مسجد اقصیٰ ربوہ آپ کی عالی حوصلگی اور دین کے لئے آپ کی جاں نثاری کی درخشاں علامت ہے۔ آپ کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کی جرأت، بے خوفی اور حق گوئی تھی۔ بات کہنے کا سلیقہ بھی تھا چنانچہ جب وہ کوئی بات کہتے تھے تو وہ سنی جاتی تھی اور اس کا اثر بھی ہوتا تھا۔ قادیان سے انتہائی عقیدت اور درویشان سے بے حد محبت تھی۔ ایک بار میرے لئے قادیان کے لنگر کی خشک روٹیوں اور گڑ کا تحفہ لائے جو کسی درویش بھائی سے خریدا تھا۔
محترم بانی صاحب کا یہ ایمان تھا کہ قادیان کی آبادی کا سامان کرنا ہر احمدی کی ذمہ داری ہے۔ اور وہ احمدی جو بیرونی دنیا سے آکر قادیان میں آباد نہیں ہوسکتے اُن کا فرض ہے کہ وہ اپنی استعداد کے مطابق درویشان قادیان کی خدمت کریں۔
مکرم چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی مرحوم ناظر مال قادیان لکھتے ہیں: وہ شخص جس نے نہ صرف خود تا دم آخر اپنے عزم کو ہر پہلو سے پُرخلوص رنگ میں نبھایا بلکہ اپنے عزم کو اپنے بیوی بچوں کے دلوں میں منتقل کر دیا، یقینا یہ حق رکھتا ہے کہ ہم اس کے لئے درد دل سے دعائیں کریں۔
درویشوں اور ان کے اہل وعیال کے گزارے نہایت قلیل تھے۔ اس زمانہ میں بانی صاحب کی سوچوں کا دھارا صرف اس رخ پر بہتا رہا کہ وہ درویشوں کی تکالیف کو کم کرنے کے لئے اپنے خداداد اموال کو کس رنگ میں صرف کرسکتے ہیں۔ چنانچہ 1955ء میں جبکہ درویشوں اور ان کے بیوی بچوں کی تعداد چھ سو کے قریب تھی اُن کی طرف سے ہر فرد کے لئے نئے کپڑوں کا تحفہ پہنچا۔ اچھی کوالٹی کے کپڑے کے درجنوں تھان امرتسر سے لا کر محلہ احمدیہ میں تقسیم کئے گئے۔ ان کپڑوں کی سلائی کے لئے نقد رقم بھی دی گئی اور پھر یہ سلسلہ ہر سال دہرایا جانے لگا۔ سردیوں میں رضائیاں بھی تقسیم ہونے لگیں اور عیدین کے موقعہ پر نقد عیدی بھی دی جاتی رہی۔ مزید جن خدمات کی توفیق ملی اُن میں دوسال سے کم عمر کے ہر بچے کے لئے دودھ کا انتظام، گرلز سکول کی بچیوں کے لئے یونیفارم کا انتظام، جوان ہونے والی بچیوں کے لئے برقعوں کا انتظام، بیماروں کے لئے ادویہ کا انتظام، تعلیم الاسلام ہائی سکول، مدرسہ احمدیہ اور نصرت گرلز ہائی سکول کے لئے مکمل فرنیچر اور پنکھوں کا انتظام، اعلیٰ تعلیمی وظائف کے لئے ایک بڑی رقم کا انتظام، مساجد میں پنکھے لگوانے کا خرچ، بہشتی مقبرہ میں لائٹ لگوانے کا خرچ، ہندی ترجمۃ القرآن کا سارا خرچ، بچوں کے لئے کھیلوں کا انتظام، منارۃ المسیح کی سفیدی کے لئے عطیہ، لنگرخانہ کی تعمیر کا سارا خرچ، کلکتہ اور مدراس کی مساجد کے لئے گرانقدر عطیہ جات۔
اس کے علاوہ بانی صاحب نے قادیان کے تمام درویشوں اور ان کے بیوی بچوں کے لئے جن کی تعداد تیرہ صد کے قریب ہے، ہر سال چار ماہ کی گندم دینے کا انتظام کیا اور یہ انتظام گزشتہ پندرہ سال سے اسی طرح جاری ہے۔ خدمت خلق کے وہ تمام کام جو آپ کیا کرتے تھے وہ اب بھی اسی طرح جاری ہیں اور یہ سب حضرت مصلح موعود کی دعاؤں کے طفیل ہے۔
قادیان سے ان کی محبت کا ایک اور واقعہ پیش خدمت ہے۔ تقسیم ملک کے وقت ہندوستان کی حکومت نے موجودہ محلہ احمدیہ کو متروکہ املاک قرار دیدیا تھا اور یہ شرط رکھی کہ اگر جماعت سات آٹھ لاکھ کے قریب رقم ادا کردے تو یہ مکانات جماعت کے پاس رہنے دیئے جائیں گے ورنہ ہندو اور سکھ پناہ گزینوں کو الاٹ کر دیئے جائیں گے۔ اس زمانہ میں اس رقم کی ادائیگی انجمن کے لئے ممکن نہ تھی۔ جب محترم بانی صاحب کو اس صورتحال کا علم ہوا تو آپ نے مصمم ارادہ کرلیا کہ اپنی ساری جائیداد فروخت کرکے ان املاک کو غیروں کے قبضہ میں جانے سے روکیں گے۔ انجمن کا ایک وفد اس وقت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو سے ملا اور حکومت نے رقم کم کرکے تقریباً اڑھائی لاکھ کردی اور یہ رقم بھی تین اقساط میں لینے پر آمادگی ظاہر کردی۔ اس فیصلہ سے آپ کو بہت خوشی ہوئی اور آپ نے حصول ثواب کی خاطر بہشتی مقبرہ اور اس سے ملحقہ باغ کی پوری قیمت ادا کردی۔
قرآن مجید سے آپ کو عشق تھا۔ ہر صبح نہایت خوش الحانی سے تلاوت کرتے، دو یا تین پارے آپ نے حفظ بھی کئے تھے۔ اسی طرح درثمین فارسی کی بہت سی نظمیں آپ کو ازبر تھیں۔ خاص طور پر نعتیہ کلام بڑے ترنم سے پڑھتے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے۔ آپ نے گورمکھی اور ہندی ترجمۃ القرآن کے لئے رقم قادیان بھجوا دی تھی۔ اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی تحریک پر ایک زبان میںترجمہ کا پورا خرچ بھی ادا کردیا۔ تقسیم ملک سے قبل تفسیر کبیر کی اشاعت کے لئے چھ ہزار عطیہ بھی دیا۔
آپ بہت سادہ زندگی گزارتے تھے۔ مال و دولت کے باوجود تکبر اور غرور کا نام ونشان نہ تھا۔ ہر ایک سے بہت خلوص اور محبت سے ملتے۔
1967ء میں اڑیسہ میں زبردست سمندری طوفان آیا تو حضرت سیٹھ صاحب نے نقد امداد کے علاوہ و افر تعداد میں کمبل اور کپڑے وغیرہ سے بروقت امداد فرمائی۔ 1971ء میں پھر ایک طوفان آیا اور ریڈیو سے علم ہونے پر سیٹھ صاحب نے مربی کلکتہ کے ذریعہ طوفان زدہ احمدیوں کو امداد بھجوائی۔ 1969ء میں فرقہ وارانہ فسادات میں احمدیوں کی دکانیں لوٹ لی گئیں تو آپ نے ہزاروں ہزار روپے سے ان کی امداد کی۔
محترم بانی صاحب ایک معروف حکایت بار بار سنایا کرتے تھے کہ ایک امیر شخص بہت زیادہ سخی تھا۔ اس کے مصاحب اسے منع کرتے تھے کہ اس طرح خرچ کرنے سے تمہاری دولت ختم ہو جائے گی۔ آخر اس نے غرباء کی امداد سے ہاتھ کھینچ لیا۔ ایک رات اس نے خواب میں دیکھا کہ کچھ لوگ اس کے خزانہ سے مال و دولت اٹھا کر لے جارہے ہیں اور آن کی آن میں سارا خزانہ خالی ہوگیا۔ دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ ہم فرشتے ہیں اور یہ سب مال و دولت دراصل تمہارے پاس غرباء کی امانت تھا۔ اب جبکہ تم غرباء کی خدمت کرنے سے تھک گئے ہو تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ یہ سارا مال کسی دوسرے انسان کے سپرد کیا جائے جو غربا کی خدمت کے لئے تیار ہو۔ تمہارے حصے کا مال چھوٹی سی پوٹلی میں ہم نے تمہارے خزانے میں چھوڑدیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہایت دردمند دل دیا تھا اور آپ بڑی حساس طبیعت کے مالک تھے۔ اگر کوئی یتیم بچہ آپ کے پاس آتا تو اس کی موجودگی میں کبھی اپنے بچوں کو پیار نہیں کرتے تھے تاکہ اسے اپنے باپ کی کمی محسوس نہ ہو۔ جب بھی کوئی ملاقات کے لئے آتا، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، غریب ہو یا امیر، ہمیشہ کھڑے ہو کر بڑی خندہ پیشانی سے استقبال کرتے۔
ایک درمیانی درجہ کے ہوٹل کے ساتھ آپ نے یہ انتظام کیا کہ ایک معقول رقم دے کر کھانے کے ٹوکن بنوائے۔ آپ بہت سے ٹوکن ہمیشہ جیب میں رکھتے تھے جب بھی کوئی غریب مستحق سوالی آپ کے پاس آتا اسے ٹوکن دے کر ہوٹل کا پتہ بتلا دیتے کہ وہاں سے جا کر کھانا کھالو۔
ایک صبح سیر کے دوران دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی بیشمار مخلوق سردی کے موسم میں کسی چادر یا کمبل کے بغیر فٹ پاتھ پر پڑی ہے۔ اسی دن کمبلوں کی مارکیٹ سے درمیانہ درجہ کے کمبل خریدے اور دوسرے روز منہ اندھیرے نہایت رازداری کے ساتھ ان سوئے ہوئے لوگوں پر کمبل ڈالتے چلے گئے۔
مولوی عبدالحق فضل صاحب بہار میں مربی سلسلہ تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ بہار میں سخت قحط پڑ گیا۔ بعض خاندان قحط سے بہت متاثرہوئے جس کا ذکر مَیں نے اپنی ایک رپورٹ میں اخبار بدر میں کردیا۔ محترم سیٹھ صاحب نے اُن خاندانوں کے کوائف منگوائے اور اُن کو براہ راست کپڑوں کے پارسل اور نقد رقم بھجوادی اور اس کے بعد سالہا سال تک وظائف جاری فرمائے۔ بعدازاں جلسہ سالانہ پر ملاقات ہوئی۔ قبل اس کے کہ میں شکریہ ادا کرتا، آپ نے میرا شکریہ ادا کیا کہ آپ نے مجھے ایک نیک کام کی طرف توجہ دلائی۔
کلکتہ میں ہمارا آٹوپارٹس کا کاروبار تھا۔ بقیہ سب دکانیں ہندوؤں اور سکھوں کی تھیں۔ خریداروں کی اکثریت بھی ہندو اور سکھ ہی تھے۔ لیکن والد صاحب کا امانت اور دیانت کے اصولوں پر سختی سے عمل تھا کہ مذہبی تعصب کے باوجود سب خریدار ہماری دکان سے سامان خریدنا پسند کرتے تھے۔
محترم بانی صاحب کلکتہ جماعت کے قاضی تھے۔ انگریزی حکومت میں اپنے علاقہ میں جیوری کے ممبر تھے اور آنریری مجسٹریٹ بھی تھے۔ چنیوٹ برادری کے غیرازجماعت بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپ کا فیصلہ سب کے لئے قابل قبول ہوتا۔
1971ء میں آپ کو اور آپ کی اہلیہ کو حج کی سعادت بھی ملی۔ 1972ء میں مسجد اقصیٰ کاافتتاح ہوا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے خاص طور پر آپ کو ربوہ بلوایا۔ آپ اس بات کے خواہشمند تھے کہ کسی کو اس بارہ میں علم نہ ہو۔بلکہ آپ کسی بھی مالی خدمت کو اخبار میں شائع کرانے کے حق میں نہیں تھے اور تاکید کررکھی تھی کہ کسی بھی ایسے اعلان میںمیرانام قطعاً شائع نہ کیا جائے۔
مئی 1974ء میں آپ کراچی میں شدید بیمار ہوگئے۔ ڈاکٹروں نے کینسر تشخیص کی۔ آپ نے اس موذی مرض کا بڑی ہمت سے مقابلہ کیا اور بڑے صبر اور سکون سے بیماری کی تکلیف برداشت کرتے رہے۔ بالآخر 20 دسمبر 1974ء بروز جمعہ آپ وفات پاگئے۔ آپ موصی تھے اور اپنی زندگی میں ہی حصہ جائیداد اور حصہ آمد اداکرچکے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ازراہ شفقت قطعہ مبشرین میں تدفین کے لئے ارشاد فرمایا۔ قبر تیار ہونے پر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ نے دعا کروائی۔
آپ نے وفات سے پہلے خاص طور پر خاکسار کو تلقین کی کہ جس طرح میں نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے خدمت خلق کے کام کرنے کی کوشش کی ہے تم ان سب کاموں کو جاری رکھنا۔ کیونکہ انسان کی زندگی کا اصل مقصد یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے اور اس کی مخلوق کی بے لوث خدمت کی جائے۔ ربوہ میں بیگم زبیدہ بانی ونگ ان کی ایک بہترین یادگار ہے۔ طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ میں بھی گرانقدر خدمت کی توفیق ملی۔ کراچی کے آنکھوں کے احمدیہ ہسپتال میں صدیق بانی ونگ اور بیگم زبیدہ بانی ونگ خدمت خلق کے کاموں میں مصروف ہیں۔ مٹھی تھرپارکر کے المہدی ہسپتال میں صدیق بانی آئی یونٹ اس علاقہ کے لوگوں کی خدمت کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ خدمات قبول فرمائے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں