محترم چودھری مبارک مصلح الدین احمد صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 2؍دسمبر 2022ء)

چودھری مبارک مصلح الدین احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍اکتوبر2013ء میں محترم چودھری مبارک مصلح الدین احمد صاحب کا ذکرخیر اُن کے بیٹے مکرم مجدالدین مجد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

مجددالدین صاحب

محترم چودھری مبارک مصلح الدین صاحب 21؍جون 1934ء کو قادیان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا حضرت میاں محمد دین صاحب واصلؓ باقی نویس نے 1895ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی دستی بیعت کی تھی۔ ’’ضمیمہ انجام آتھم‘‘ میں 313؍اصحاب کی فہرست میں ان کا نام تیسرے نمبر پر درج ہے۔ وہ 313 درویشانِ قادیان میں بھی شامل تھے۔ آپ کے والد حضرت صوفی غلام محمد صاحبؓ بھی صحابی تھے، انہوں نے بطور واقف زندگی (ناظراعلیٰ ثانی و ناظرمال خرچ) تادمِ آخر خدمت کی توفیق پائی۔ آپ کے نانا حضرت ماسٹر الٰہی بخش صاحبؓ سٹیشن ماسٹر تھے۔
محترم چودھری صاحب آٹھ بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے۔ دو بھائی اَور بھی پیدا ہوئے جو کم سنی میں وفات پاگئے۔ آپ نہایت ذہین تھے۔ کئی کھیلوں خصوصاً فٹ بال کے اعلیٰ درجہ کے کھلاڑی اور بہت اچھے تیراک تھے۔ اگرچہ آپ کے والدین نے آپ کو پیدائش کے وقت وقف کردیا تھا تاہم آپ نے خود بھی میٹرک کے بعد خود کو وقف کردیا۔ آپ اور چند دیگر احباب کا امتحان حضرت مصلح موعودؓ نے خود لیا تھا۔ آپ بیان کیا کرتے تھے کہ ربوہ کا ابتدائی دَور تھا۔ امتحان 17؍ستمبر 1949ء کو ہوا جس میں سترہ سوال تھے۔ پرچہ بائیس منٹ میں حل کرنا تھا۔ جب سب نے پرچہ حل کرلیا تو حضورؓ نے سب کو ملاقات کے کمرے میں بلالیا جہاں ناظر صاحبان کا اجلاس جاری تھا جو سب ایک دری پر بیٹھے تھے۔ حضورؓ نے باری باری ہر ایک کا پرچہ پڑھا اور بعض کے جوابات سے محظوظ بھی ہوئے۔ پھر سب کے وقف کی منظوری دی اور کالج میں مزید تعلیم حاصل کرنے کا ارشاد فرمایا۔ محترم چودھری صاحب نے حضورؓ کے ارشاد پر 1954ء میں ڈبل میتھ فزکس کے ساتھ بی ایس سی کیا اور 1956ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے میتھ میں ماسٹر کرکے ربوہ آکر خدمت کا باقاعدہ آغاز کیا جس کا سلسلہ تا وقت وفات 16؍مارچ 2013ء تک جاری رہا۔
قرآن کریم سے آپ کو انتہائی شغف تھا اور آپ نے اپنے شوق سے قرآن کریم حفظ بھی کرلیا تھا۔ آپ قرآن کریم کے مضامین میں ڈوب کر تلاوت کرتے جو سامع پر گہرا اثر چھوڑتی۔مسجد مبارک کے امام الصلوٰۃ بھی رہے۔ آپ کے زیرمطالعہ قرآن کریم کے نسخوں پر جابجا آپ کے نوٹس لکھے ہوتے۔ تفاسیر کا بھی گہرا مطالعہ تھا۔ اپنے سب بچوں اور اُن کے بچوں کو بھی قرآن کریم شروع کرنے پر اپنا دستخط شدہ قرآن کریم کا نسخہ تحفۃً دیتے۔ سب کی تقریب آمین کا بھی اہتمام کرتے اور کوئی تحفہ ضرور دیتے۔
آپ بظاہر ایک سخت گیر افسر نظر آتے تھے لیکن دراصل بہت شفیق اور ہمدرد وجود تھے۔ اس بات کا اظہار آپ کے ساتھ کام کرنے والے کئی کارکنان نے کیا۔
ہر قدم خلیفہ وقت کے مشورے اور دعا سے اٹھاتے۔ 2004ء میں آپ برما کے دورے پر تھے کہ ہرنیا کی تکلیف ہوگئی۔ ڈاکٹر نے آپریشن تجویز کیا تو آپ نے اجازت کی غرض سے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں خط تحریر کیا۔ وہاں سے جواب میں کچھ تاخیر تھی اور معالج فوری آپریشن چاہتا تھا تو اُس نے نمبر لے کر وہاں سے ڈاکٹر مسعودالحسن نوری صاحب کو فون کیا، صورتحال بیان کی اور کہا کہ آپ کا مریض کہتا ہے کہ مَیں اپنے امام سے پوچھے بغیر آپریشن نہ کرواؤں گا۔ حضورانور کا جواب آیا کہ مزید مشورہ کرلیں۔ برما کے احباب کہتے ہیں کہ یہ بھی حضور کی دعا کا معجزہ تھا کہ آپ کی طبیعت بہت جلد سنبھل گئی اور اُسی روز نماز عشاء کی امامت آپ نے کروائی۔ پھر بخیروعافیت ربوہ آگئے بعدازاں یہاں آپ کا ہرنیا کا آپریشن ہوا۔
محترم چودھری صاحب کو خلافت سے بہت محبت تھی۔ آپ کی زندگی میں آپ کی چھ بہنوں اور والدین کی وفات ہوئی تو آپ نے غیرمعمولی صبر کا نمونہ دکھایا تاہم جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی وفات کی خبر آپ کو ملی تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔
آپ کی وفات پر حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے نہایت محبت سے اپنے خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکرخیر فرمایا بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں