محترم چودھری محمد شفیع صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍اپریل 2008ء میں مکرم نذیر احمد سانول صاحب کے قلم سے محترم چودھری محمد شفیع صاحب کی یادوں پر مشتمل ایک مضمون شائع ہوا ہے۔
محترم چودھری احمدالدین صاحب کے دو بیٹے مکرم چودھری محمد شفیع صاحب اور مکرم محمد اشرف صاحب تھے۔ مکرم محمد اشرف صاحب پڑھے لکھے اور محکمہ مال میں پٹواری تھے۔ جبکہ مکرم چودھری محمد شفیع صاحب معمولی پڑھے لکھے، سادہ منش اور درویش صفت انسان تھے۔ آپ کی سادگی علاقہ میں ضرب المثل تھی۔ دنوں بھائی معزز راجپوت خاندان اور معروف زمیندار فیملی سے تعلق رکھتے تھے اور مکرم چودھری احمد خاں رانا صاحب سابق امیر ریاست بہاولپور کے داماد تھے۔
مکرم چوہدری محمد شفیع صاحب سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ سر پر عام ڈھیلی ڈھالی پگڑی اور پاؤں میں چمڑے کی دیسی طرز کی جوتی پہنتے۔ ہاتھ میں ہمیشہ سوٹی رکھتے تھے۔ فضول بات نہ کرتے اور نہ ہی بے مقصد کسی کی گفتگو میں شریک ہوتے۔ گرمیوں کی دوپہر کو میرے پاس آتے تاکہ میرے زیرمطالعہ جو بھی کتاب ہو، اُسے مَیں بلند آواز میں پڑھوں اور آپ سنتے رہیں۔ اس طرح کئی کتب آپ نے سن لیں۔ نماز سے کافی دیر قبل مسجد آتے اور نماز و نوافل بہت انہماک سے ادا کرتے۔ بیماری کی حالت میں بھی تکلیف اٹھاکر مسجد آکر نماز ادا کرنے کی کوشش کرتے۔ کثرت تلاوت کی وجہ سے قرآن کریم کا ادراک تھا۔ نماز فجر کے بعد مسجد میں گھنٹوں تلاوت کرتے رہتے۔ پھر اشراق اور چاشت کے نوافل پڑھتے۔ لمبے سجدے کرتے۔
آپ کی یہ خوبی نمایاں تھی کہ ہر تحریک میں حصہ لیتے۔ آپ کو ادائیگی چندہ جات کے ساتھ ادائیگی حصہ جائیداد کی بڑی فکر تھی۔ آپ کی آمد صرف زرعی رقبہ سے تھی اور وہ بھی سال بعد آتی جب ٹھیکہ جات کی رقوم وصول ہوتی۔ حصہ جائیداد کی ادائیگی کے لئے آپ نے رقبہ بجائے ایک سال ٹھیکہ دینے کے چند سال کا یکبار ٹھیکہ دیدیا اور چند سال بڑے قناعت اور صبر سے اپنے اخراجات کو محدود کر لیا۔ اپنی زندگی میں ہی اپنا حساب بیباق کرچکے تھے۔
موصوف کی اہلیہ کافی عرصہ قبل وفات پاگئی تھیں جب ابھی چھوٹی بیٹی گود میں تھی۔ چنانچہ بڑے صبر اور محنت سے آپ نے بچوں کی پرورش اور تربیت کی۔ آپ کی اولاد میں دوبیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ تین پوتے بھی ہیں جو تینوں حافظہ قرآن اور وقف نو کی تحریک میں شامل ہیں۔ ایک نواسی بھی حفاظہ قرآن ہے۔
مرحوم بڑے صابر و شاکر تھے۔ لمبی بیماری میں بھی شکوہ نہ کیا۔ 15 ؍اگست 2003ء کو 82 سال کی عمر میں وفات پائی۔ جنازہ ربوہ لے جایا گیا اور بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں