محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍جون 2002ء میں محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے بیٹے مکرم احمد سلام صاحب کے قلم سے اپنے والد کے بارہ میں ایک انگریزی مضمون کا اردو ترجمہ (از مکرم محمد زکریا ورک صاحب) شامل اشاعت ہے۔

محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب
جناب زکریا ورک صاحب

مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ میرے ابی نے جس چیز کے بارہ میں اپنے خیالات کا اظہار پوری بے باکی سے کیا، وہ کاہلی اور وقت کے ضیاع سے شدید نفرت تھی۔ بیداری کے ہر لمحے کو مفید رنگ میں استعمال کرنا اُن کی خواہش اور اپنی فیملی کے ہر فرد سے توقع تھی۔ آپ کی ڈکشنری میں چھٹی کا لفظ نہیں تھا۔ سکول کی تعطیل کا مطلب سٹڈی روم میں بیٹھ کر مطالعہ کرنا اور اگلے اسباق کی تیاری تھا۔ صرف کھانے اور نماز کا وقفہ ہوتا تھا۔ ہفتہ وار چھٹی کے روز وہ مجھے امپیرئیل کالج لے جاتے اور اپنے کسی ڈاکٹریٹ طالبعلم کی نگرانی میں دیدیتے۔ جو وقت پڑھائی سے بچتا وہ مطالعہ میں صرف ہوتا۔ ہر کتاب کا مطالعہ کرکے اس کا خلاصہ لکھنا ہوتا تھا۔
اباجان کو کوئی فضول خرچ نہیں کہہ سکتا تھا۔ فی الحقیقت اپنی ذات پر خرچ کرنے کے بارہ میں وہ بہت تنگ دل واقع ہوئے تھے لیکن کوئی ایسا کام یا فعل جس سے انسان علم میں اضافہ کرسکے، وہ بہت فیاض تھے۔ مفید مشغلے بھی ان اخراجات میں شامل تھے۔ وہ کہتے تھے کہ دو چیزیں انسان کو ضرور سیکھنی چاہئیں۔ ایک ٹائپنگ اور دوسری ڈرائیونگ۔
اوائل بلوغت میں مَیں نے اُن سے اپنی ایک من پسند کار خریدنے کیلئے رقم مانگی تو انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اگر مجھے اس کار کے رکھنے اور چلانے کے لئے اخراجات کرنے کی استطاعت ہے تو پھر مجھے اپنی رقم سے بچت کرکے اس کار کو خریدنے کی توفیق بھی ہونی چاہئے۔
آپ اپنا وقت بالکل ضائع نہیں کرتے تھے۔ مسجد بھی جاتے تو مقصد صرف نماز کی ادائیگی ہوتا۔ ہاں بزرگوں کا احترام کرتے جیسے حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ سے جاکر ملاقات کرتے لیکن فوراً رخصت لے لیتے۔ ایئرپورٹ پر فلائٹ کے انتظار میں گزرنے والے لاتعداد گھنٹے آپ نے مطالعہ میں صرف کئے۔ یہ مطالعہ صرف سائنسی کتب کا یا دیگر علوم کا نہیں تھا بلکہ ایک جیبی سائز کا قرآن مجید کا نسخہ ہر وقت آپ کی جیب میں ہوتا۔ گھر پر مطالعہ میں مصروف ہوتے تو قرآن کی تلاوت کا ٹیپ بھی چل رہا ہوتا۔ بظاہر فزکس کی کسی تھیوری پر کام نہ بھی کر رہے ہوتے تو آپ کا دماغ کسی سائنسی معمہ کو حل کرنے میں مصروف ہوتا۔ آپ نہیں چاہتے تھے کہ ہم اپنا وقت ٹیلی وژن دیکھنے میں ضائع کریں۔ لیکن جب آپکی اماں جی نے ہمارے ساتھ رہائش اختیار کی تو آپ گھر میں ایک ٹیلی وژن سیٹ لانے پر آمادہ ہوگئے۔ یہ سیٹ اماں جی کے کمرہ میں نصب کیا گیا اور ہم پر لازم تھا کہ جو پروگرام ہم انگریزی میں دیکھیں گے اُس کا ترجمہ ہمیں پنجابی میں اماں جی کے لئے کرنا ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں