محترم ڈاکٹر عبدالسمیع انبالوی صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍فروری 2007ء میں مکرمہ ڈاکٹر امۃالمصور سمیع صاحبہ نے اپنے والدین کا ذکر خیر کیا ہے۔
آپ بیان کرتی ہیں کہ میرے والد محترم ڈاکٹر عبدالسمیع انبالوی صاحب 20؍جنوری 1926ء کو محترم بابو عبدالغنی صاحب انبالوی کے ہاں انبالہ میں پیدا ہوئے۔ ابھی چھ ماہ کے تھے کہ والدہ محترمہ دولت بی بی صاحبہ وفات پاگئیں۔ اگرچہ آپ نے ابتدائی تعلیم انبالہ سے ہی حاصل کی لیکن دینی تعلیم کے لئے کئی بار قادیان جانا ہوا۔ بہت ذہین تھے اور قرآن کا اکثر حصہ زبانی یاد تھا۔ پہلے امرتسر میڈیکل کالج سے اور ہجرت کے بعد کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے طب کی تعلیم حاصل کی۔ اگرچہ حکومت نے برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے وظیفہ کا حقدار قرار دیا اور گولڈ میڈل سے نوازا لیکن آپ ذاتی مجبوریوں کی وجہ سے برطانیہ نہ جاسکے۔ آپ کی شادی محترمہ امۃالرحمن بیگم صاحبہ بنت حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری سے ہوئی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اعلان نکاح فرمایا۔ خدا تعالیٰ نے آپ کو 8 بیٹیوں اور 3 بیٹوں سے نوازا۔ ملازمت کے سلسلہ میں آپ زیادہ تر صوبہ سرحد اور بلوچستان میں مقیم رہے اور 1980ء میں آپ کا تبادلہ لاہور میں ہوگیا۔ آپ کے سب بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ڈاکٹر امۃ الجمیل سمیع صاحبہ نے کوئٹہ میں B.Sc میں Topکیا اور گولڈمیڈل لیا۔ امتہ الرزاق سمیع صاحبہ نے میٹرک اور F.Sc میں امتیازی پوزیشنیں حاصل کیں اور گولڈ میڈلز لئے، پھر فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور سے MBBS کی تعلیم حاصل کی اور فائنل پروفیشنل میں 6 میڈلز حاصل کئے، بعد میں ایڈنبرا سے FRCS پاس کیا۔ ڈاکٹر امۃ الشافی سمیع صاحبہ نے بھی ایڈنبرا سے FRCS پاس کیا اور (U.K) M.S Surgery کرکے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے گولڈمیڈل حاصل کیا۔ ڈاکٹر امۃ الجمیل سمیع صاحبہ نے U.K سے Ph.D کی اور پاکستان آکر دوسری Ph.D کی ڈگری لی۔ ڈاکٹر امۃالسلام سمیع صاحبہ نے U.K میں اپنے M.S کے پروجیکٹ میں الرجی پر ریسرچ ورک کرکے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ ڈاکٹر امۃالرزاق سمیع صاحبہ نے بھی حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے گولڈ میڈل حاصل کئے اور ایک ریسرچ ورک کرنے پر اپنے ہسپتال سے گولڈ میڈل وصول کیا۔ ڈاکٹر امۃالجبار سمیع صاحبہ نے U.K اور امریکہ سے انستھیزیا میں مہارت حاصل کی۔ ڈاکٹر رفیق سمیع صاحب اور ڈاکٹر لطیف سمیع صاحب (بینکار) نے بھی بیرونی ملک سے اپنے اپنے فیلڈ میں سپیشلائز کیا۔ مکرم عبدالبصیر سمیع صاحب نے U.K. سے انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی۔
جماعت کے کاموں میں ابو اور امی دونوں باقاعدگی سے حصہ لیتے۔ جماعتی جلسوں پر باقاعدگی سے اور جمعہ کے لئے ضرور جاتے۔ چندوں کی ادائیگی میں دونوں بہت مستعد تھے اور اپنے سب بچوں کی طرف سے چندہ کا حساب کتاب ایک رجسٹر میں درج کرتے۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے پرانے کھاتوں کو زندہ کرنے کی ہدایت کی تو آپ نے اپنے والدین کے کھاتوں کو بھی زندہ کروایا۔
دوران ملازمت والد صاحب کو احمدی ہونے کے ناطے سخت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ بلوچستان کے لوگ کہتے تھے کہ آپ کے دو جرم ہیں۔ پہلا پنجابی ہونا اور دوسرا مرزائی ہونا۔ چنانچہ آپ کو ہمیشہ ترقی کے وقت پیچھے دھکیل دیا جاتا تھا۔ جب آپ کی پوسٹنگ خضدار میں ہوئی تو وہاں کے عملے نے ہڑتال کردی کہ ہمیں مرزائی ڈاکٹر نہیں چاہئے۔ 1974ء میں پوسٹنگ تربت ہوئی تو یہاں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور ایک مرتبہ تو ڈیوٹی کے دوران غنڈہ عناصر نے مار پیٹ کی۔ وہاں سے بڑی مشکل سے واپس کوئٹہ تبدیلی کروائی گئی۔ اکثر لوگ کہتے تھے کہ ’’ہے تو مرزائی ڈاکٹر مگر اس کے ہاتھ میں شفا ہے‘‘۔ آپ صحت کے حوالہ سے اخبار الفضل میں مضمون بھی لکھا کرتے تھے۔ ہر کام سے پہلے دعا ضرور کرتے تھے۔
میرے والدین نے شروع ہی سے بچوں کو نماز اور قرآن شریف پڑھنے کی عادت ڈالی۔ جہاں احمدیہ مسجد نہ ہوتی وہاں گھر کے کمرہ کو نماز کے لئے مخصوص کردیتے اور باقاعدگی سے سب بچوں کو نماز پڑھاتے۔ کئی دفعہ جمعہ کی نماز بھی پڑھاتے۔ گھر میں جماعتی رسائل آتے اور کوشش ہوتی کہ ضرور یہ رسائل پڑھے جائیں۔ خود بھی خلیفۂ وقت کو باقاعدگی سے خط لکھتے اور ہمیں بھی تاکید کرتے۔قرآن شریف سے اتنی محبت تھی کہ نہ صرف باقاعدگی سے روزانہ تلاوت کرتے اور ہم سب کو بھی یہی ہدایت کرتے۔ اپنی کار میں ایک چھوٹا سا قرآن شریف رکھا ہوا تھا، جب بھی وقت ملتا اُسے پڑھتے رہتے۔ پڑھائی کے سلسلے میں کسی بہن یا بھائی پر سختی نہ کی۔ کہا کرتے تھے کہ دنیا کا آسان ترین کام پڑھائی ہے۔ ہم سب بچوں کی وصیت میٹرک کے فوراً بعد کروا دی تھی۔
والد صاحب غریب لوگوں کا مفت علاج کرتے تھے اور دوا بھی دیتے۔ آپ اپنے مریضوں کیلئے دعا اور دوا دونوں کرتے تھے۔ ایک آدمی نے بتایا کہ میرا چھوٹا بیٹا قریب المرگ تھا اور میں قبرستان میں قبر کھود کر اور کفن وغیرہ لے کر آرہا تھا۔ میں نے جب آپ کے گھر کے باہر کلینک کا بورڈ دیکھا تو آپ کو اپنے بیٹے کی بیماری کا بتایا کہ ابھی شاید زندگی کی رمق ہے اور میں قبرستان میں قبر کھدوا کر اور کفن لے کر آرہا ہوں۔ آپ فوراً اُس کے ہمراہ چل دیئے اور بچے کا معائنہ کرکے دعا اور دوا دنوں شروع کردیں۔ محض خدا کے فضل و کرم سے وہ بچہ تندرست ہوگیا۔ پھر وہ انگلینڈ چلا گیا اور بعد میں اس نے اپنے گھر والوں کو بھی بلا لیا۔ پھر خدا تعالیٰ نے اُن سب کو قبول احمدیت کی توفیق بھی بخشی۔
6؍ اگست 1995ء کو آپ کی وفات ہوئی تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ازراہ شفقت امی جان کو افسوس کے لئے فون کیا اور آپ کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی۔ تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔
میری امّی بھی غریبوں کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ جب ہم کوئٹہ میں تھے تو وہاں ایک لڑکی ہمارے گھر ٹماٹر بیچنے آتی تھی جس کی سوتیلی ماں اُس پر بہت ظلم کرتی تھی۔ امی اُس سے سارے ٹماٹر خرید لیتیں اور اُسے خاص ہدایت کرکے گھر بھجواتیں کہ چھوٹی سی بچی اِدھر اُدھر نہ پھرتی رہے۔ امی جان کی غائبانہ نماز جنازہ بھی حضرت صاحب نے پڑھائی اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں