مسجد سے وابستگی کی خوبصورت یادیں اور چند برکات
(مطبوعہ رسالہ انصارالدین جولائی اگست 2024ء)
اپنے ذہن کے نہاں خانوں میں جھانک کر جب مَیں نے بچپن کی یادیں سمیٹنے کی کوشش کی تو ایک بہت خوشگوار یاد مسجد بیت الحمد (دارالیمن وسطی ربوہ) کی تھی جو گنبدوں والی مسجد کے نام سے معروف تھی جس کی وجہ اس کے تین سفید گنبد اور دو اطرافی مینار تھے۔ اس مسجد میں بچپن سے لےکر اوائل جوانی تک کا میرا بہترین وقت گزرا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ مسجد کے ساتھ تعلق بنانےمیں سب سے اہم کردار میری والدہ محترمہ کا تھا جو ہر نماز پر ہر روز کبھی غصہ سے اور زیادہ تر پیار سے مسجد بھیجا کرتی تھیں اور نما زکے بعد جب گھر واپس آتا تو امی جان نماز کا پوچھا بھی کرتی تھیں۔ بچپن میں اپنے چچا کے ساتھ مسجد میں جانا شروع ہوا تھا لیکن ربوہ میں رہنے کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ گلی کے یار دوستوں کے ساتھ بِنا کسی بڑے کی نگرانی کے مسجد چلے جاتے تھے۔ وہاں نمازوں کے بعد مختلف تعلیمی و تربیتی کلاسیں ہوا کرتی تھیں جو کہ منتظم اطفال لیا کرتے تھے۔ ایک اصول یہ بھی تھا کہ جس نے عصر کی نماز ادا نہیں کی اسے عصر سے مغرب تک ہونے والی کھیلوں میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ جس دن مسجد میں بالخصوص عصر اور مغرب ادا نہ کی جاتی منتظم صاحب اطفال یا گلی کا سائق حال احوال پوچھنے گھر پر چلا آتا (گوایسا بہت کم ہوتا)۔
بچپن سے مسجد جانے کا سب سے پہلا اور بڑا فائدہ جو تب نظر نہیں آتا تھا وہ یہ تھا کہ لاشعوری طور پر مسجد کی تقدیس و حرمت دل میں قائم ہوگئی۔ محلّے کے بڑوں بزرگوں سے خاص فائدہ اٹھانے کا بھی موقع ملتا رہا کیونکہ وہ خود بھی ہر جمعہ کے روز نماز فجر کے بعد پوری مسجد کی صفائی وغیرہ یعنی وقار عمل کرتےاور اس بات کا بھی خیال رکھتے کہ محلے کا ہر طفل اس وقار عمل میں شامل ہو۔ اس وقارعمل میں تمام مسجد کو دھویا جاتا، صفیں جھاڑی جاتیں، دیواروں پہ جالوں وغیرہ کی صفائی کی جاتی اور مسجد سے ملحقہ کچی زمین پر بکھرے پتوں اور دیگر دھول مٹی کو صاف کر کے چونا لگایا جاتا۔ وضو کرنے کی جگہوں اور غسل خانوں کی بہترین صفائی کی جاتی۔ پھر اگربتیاں جلا کر مسجد کے درودیوار کو معطّر کر دیا جاتا۔
مجھے کوشش کے باوجود بھی یہ یاد نہیں آتا کہ مَیں نے کبھی گھر میں نماز یاد کی ہو۔ بلکہ ہماری مسجد میں بلاناغہ نماز یاد کروانے کی کلاسیں منعقد ہوتیں جن میں نماز باترجمہ رواں اور پھر لفظی ترجمہ کے ساتھ یاد کروائی جاتی۔ مربی اطفال نے ہمیں وفات مسیح کے متعلق بھی آیات یاد کرائیں۔ مختلف دلیلیں سمجھائیں۔ پھر اُس دَور میں اطفال کے پرچے ہوا کرتے تھے جو ستارۂ اطفال، ہلال اطفال، قمر اطفال اور بدر اطفال کے نام سے موسوم تھے۔ یہ پرچےمنتظم اطفال کی زیر نگرانی حل کیے جاتے تھے جس کی وجہ سے شعوری لاشعوری طور پر مختلف دینی معلومات ذہن نشین ہوتی رہیں۔ بچپن کی تربیت کے دوران ہی سیرت النبی ﷺ کے پڑھنے کا چسکا لگا جو پہلا عشق بن کر آج بھی قائم دائم ہے۔ اس طرح کچھ انتظامی سوجھ بوجھ بھی پیدا ہونے لگی۔ اطفال الاحمدیہ کی تنظیم میں پہلے سائق بنا اور پھر خادم ہونے پر منتظم اطفال تک کا سفر کیا۔
مسجد کے ذریعے خدام الاحمدیہ کی تنظیم سے بھی تعلق مضبوط ہوتا رہا۔ مسجد میں تین روزہ تربیتی اجتماعات کے دوران خیمہ جات لگا کر رہنے کا موقع بھی ملا جن میں پورے محلے کے زیادہ تر خدام ذوق و شوق سے حصہ لیتے۔ رات کھانے کے بعد شعر و شاعری و لطائف کی محفل لگتی جس کا الگ ہی مزہ رہتا۔ قصہ مختصر یہ کہ مسجد جانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نہ صرف روحانی حالت میں بہتری عطا کی بلکہ جسمانی طہارت و صحت میں بہتری بھی عطا فرمائی۔
اپنے محلّہ کی گنبدوں والی مسجد کے حوالے سے بہت سے بزرگ مجھے یاد آرہے ہیں جن میں سے کچھ حیات ہیں اور اکثر اس جہان فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔ ہمارے محلّے میں ایک بابا صدیق صاحب ہوتے تھے جن کا خاصہ یہ تھا کہ وہ نماز کے لیے اقامت کہنے میں ہمیشہ پہل کیا کرتے تھے۔ مَیں جب نیا نیا خادم ہوا تو ایک دن اُن کے ساتھ پہلی صف میں کھڑا تھا کہ انہوں نے مجھے کہنی ماری اور کہا کہ اقامت کہو۔ مَیں نے جھجک کر اور رُک رُک کر اقامت کہی۔ جہاں مَیں اٹکتا وہاں وہ لقمہ دے دیتے اور یوں انہوں نے میری جھجک کو ختم کرنے میں مدد دی۔ پھر میرا، میرے بھائی کا اوربابا صدیق مرحوم کا مقابلہ ہوتا کہ کون اقامت کہے گا۔اکثر مَیں یا میرا بھائی اقامت کہنے میں کامیاب ہو جاتے۔ کچھ عرصے کے بعد ہمیں یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ بابا جی جان بوجھ کر ہمیں جیت کر اقامت کہنے کا موقع دیا کرتے تھے۔
مسجد جانے کی ایک برکت یہ بھی حاصل ہوئی کہ امام مسجد نمازوں میں قرآن کریم کی جن آیات کی تلاوت کیا کرتے تھے، وہ آیات اُن کے بارہا دہرانے کی وجہ سے یاد ہو گئیں اور جن کا آج تک فائدہ ہو رہا ہے۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ زندگی میں قرآن مجید کا پہلا دَور مسجد میں ہی مکمل کیا تھا اور پھر دوسرا دَور بھی۔ دونوں مرتبہ والدہ محترمہ نے قرآن کریم کا دَور مکمل ہونے کی خوشی میں خادم مسجد (جو کہ اس وقت امام مسجد بھی تھے) کو سفید دھوتی کُرتے کا تحفہ دیا تھا۔
پھر مجھے محترم مولوی محمد اسمٰعیل صاحب مرحوم یاد آرہے ہیں جن کی تلاوت کی مخصوص آواز آج بھی کانوں میں گونجتی ہے اور نماز کے بعد ان کا ملفوظات (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) سے درس دینا بھی یاد آتا ہے۔ الغرض ایک نہ ختم ہونے والا یادوں کا سلسلہ ہے مسجد گنبد والی (بیت الحمد) کے حوالے سے جو قلمبند کیا جاسکتا ہے۔
مسجد کے حوالے سے مَیں نے اپنے ایک استاد مکرم عاطف وقاص پاشا صاحب (حال مقیم کینیڈا) سے جب دریافت کیا کہ وہ مسجد کے ساتھ تعلق و اہمیت کو کس نظرسے دیکھتے ہیں تو وہ کہنے لگے کہ جس طرح تم اور مَیں اس وقت فون پر ایک دوسرے سے باتیں کر رہے ہیں یعنی اِدھر تم مجھ سے بات کر رہے ہو اور فوری مَیں اس کا جواب دے رہا ہوں اسی طرح مسجد ایک بندے اور اس کے خدا تعالیٰ کے درمیان رابطے کی ایک شکل ہے۔ یعنی تمہاری بات مجھ تک مختلف ذرائع سے بھی پہنچ جائے گی مگر فون تو ڈائریکٹ رابطہ ہے۔ اسی طرح ربِ کریم سے رابطے کے بھی مختلف ذرائع ہیں مگر میرا مشاہدہ ہے کہ مسجد سے کیا جانے والا رابطہ سب سے مضبوط اور تیز تر ہے۔
مَیں نے مزید پوچھا کہ آپ کا مسجد سے تعلق کیسے بنا؟ وہ کہنے لگے کہ ربوہ میں تو تقریباً ہر ایک کا ہی مسجد سے تعلق ہوتا ہے، کسی کا واجبی سا اور کسی کا مضبوط۔ میرا مسجد سے رابطہ تو بچپن میں ہی دوسرے اطفال کی طرح شروع ہوگیا تھا۔ مگر اصل تعلق تب شروع ہوا جب مَیں نے چند دوستوں کے ہمراہ اعتکاف کیا۔ اس دوران یہ بات میخ کی طرح دل و دماغ میں گڑ گئی کہ یہ ایک عظیم الشان ہستی کا گھر ہے اور اس کا یہ حق ہے کہ اس خدائے واحد و یگانہ کی خاطر اس گھر کو پاک صاف رکھا جائے۔ تو ہم لوگ اپنی عبادات وغیرہ سے فارغ ہوکر ہر روز مسجد کی صفائی ستھرائی کیا کرتے اور خوشبو کا اہتمام کرتے۔کہنے لگے کہ مجھے لگتا ہے کہ مسجد کی اس خدمت کی بدولت اللہ تعالیٰ نے مجھے بعد میں مختلف اوقات میں کئی انعامات عطا کیے بلکہ اب تک عطا ہو رہے ہیں۔
پھر وہ کہنے لگے کہ میرا یہ احساس ہے کہ مسجد انسان کو اللہ تعالیٰ سے ملانے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عشق اور اُس کی عطا کا سفر مسجد سے ہی شروع ہوتا ہے۔جب ہم اللہ تعالیٰ کے گھر جاکر اس کے در پر دھونی رما کر بیٹھتے ہیں تو یہ ہو نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ توجہ نہ فرمائے، وہ جواب دیتا ہے اور ہم احمدیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ایک خاص کرم ہےکہ وہ جلد توجہ عطا فرما دیتا ہے۔ مَیں نے بہت سے احمدیوں کو دیکھا ہے جو اسائیلم کیس پر مغربی ممالک میں آئے اور یہاں آکر وہ باقاعدگی سے مسجدجاتے، وہاں وضوخانے اور ٹوائلٹس صاف کرتےاور مسجد کے اندر بھی دلی محبت کے ساتھ صفائی کرتے۔ اگر کبھی اُن سے پوچھا جاتا کہ اُن کا کیس کہاں تک پہنچا ہے تو جواب ملتا کہ ہمارے کیس میں کوئی جان تو نہیں تھی مگر ہم نے مسجد کے وضو خانے صاف کر کر کے اللہ تعالیٰ سے اپنا کیس پاس کروالیا۔ اسی طرح مسجد میں جب لوگ ایک دوسرے کو بلاناغہ دیکھتے ہیں تو ایک خاموش تعلق پیدا ہو جاتا ہے جس میں عزت و احترام غالب ہوتا ہے۔ اور جب کندھے سے کندھا ملا کر باجماعت نماز ادا کی جاتی ہے تو پوری جماعت ایک اکائی کی صورت ڈھل جاتی ہے۔ ایک دوسرے سے نکلتی ہوئیں روحانی شعائیں جب دوسروں میں جذب ہونے لگتی ہیں تو ایک دوسرے کی کمزوریوں کو بھی دُور کرتی ہیں۔
بچپن کی ایک خوبصورت یاد بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مسجد جانے کے ذوق و شوق کے حوالے سے مجھے محلے کے ایک محترم بزرگ بشیر قمر صاحب یاد آتے ہیں۔ اُن کا خاصا تھا کہ ربوہ میں جب سخت آندھی آتی اور لوگ گھروں کی طرف بھاگ رہے ہوتےتو وہ سخت آندھی طوفان میں بھی ہواؤں سے لڑتے لڑاتے مسجد کی طرف گامزن ہوتے۔ اُن کی دیکھا دیکھی مجھے بھی مسجد جانے کی عادت ہوگئی اور خاص طور پر جب نماز کے وقت آندھی و طوفان ہوتا تو ہم بالضرور مسجد جاتےاور بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ آندھی کے دوران نماز کے وقت مسجد میں صرف ہم دو ہی ہوا کرتے تھے لیکن جو نماز تب ادا کی جاتی اس کاسرور اور لطف ہی کچھ اَور ہوتا۔
مَیں نے اپنے ایک اَور دوست مکرم جاوید اقبال صاحب سے پوچھا کہ ان کو مسجد جانےکی عادت کیسے ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ان کو مسجد لے جانے کا سہرا ان کے مرحوم دادا جان کے سر جاتا ہے۔ بچپن میں جب وہ ایک بار مسجد اپنے دادا جان کے ہمراہ گئے تو وہاں انہیں جمعہ سے پہلے کی اذان دینے کا موقع ملا۔ اس پر خواتین کی طرف سےلجنہ کی صدر نے پیغام بھیجا کہ جس بچے نے اذان دی ہے اسے اُن کے پاس بھیجا جائے۔ جاوید صاحب ان کے پاس گئے تو صدر صاحبہ نے انہیں انعام کے طور پر ایک چونّی دی اور ساتھ ہی کہا کہ ہر جمعہ کو وہ اذان دیا کریں اور اپنا انعام لیا کریں ۔ جاوید صاحب ہنس کر کہنے لگے کہ دراصل یہ انعام کا ہی لالچ تھا جس کی وجہ سے مَیں جمعہ کا انتظار کرتا تاکہ اذان دے کر صدر لجنہ سے چونّی انعام حاصل کرسکوں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہاں مسجد میں موجود بزرگوں کا بچوں کے ساتھ رویہ بہت حوصلہ افزا تھا۔ وہ اکثر بچوں کو اپنے پاس بلاتے۔ ان کا نام اوروالد کا نام پوچھتے اور پیار کرتے شاباش دیتے۔ کہنے لگے کہ ان بزرگوں کی بدولت ان کا مسجد سے تعلق بنا جو کہ ان کی بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتا چلاگیا۔ جاوید صاحب کہتے کہ اب عمر اور حالات ایسے ہیں کہ وہ بلاناغہ مسجد نہیں جاسکتے۔ گو کہ وہ گھر میں نماز ادا کرتے ہیں مگر مسجد کو بہت مِس کرتے ہیں۔کیونکہ گھر میں پڑھی ہوئی سو نمازوں میں بھی وہ سکون نہیں ملتا جو مسجد میں جا کر ایک نماز میں ملتاہے۔
حضرت برادہ الاسلمیؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اندھیروں کے دوران مسجدوں کی طرف بکثرت چل کر جانے والوں کو قیامت کے روز نور تام عطا ہونے کی بشارت دے دو۔
اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر احمدی کو مساجد سے اپنا تعلق مضبوط کرنے اور محبت و عقیدت کے ساتھ مساجد کو آباد کرنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائےتا روز قیامت وہ بھی نور تام حاصل کرنے والا ہو۔