مسمریزم

مسمریزم کے متعلق حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کا ایک دلچسپ مضمون ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ اپریل2008ء میں شائع ہوا ہے۔
حضرت ڈاکٹر صاحبؓ فرماتے ہیں کہ کئی جگہ اصل مسمریزم بھی ہوتا ہے اور مسمرائزر اپنے ساتھ ایک لڑکا بطور ’’معمول‘‘ رکھتا ہے جس پر توجہ ڈال کر وہ باتیں پوچھتا ہے۔ ایک دفعہ ایک کلب میں افسر بیٹھے ہوئے ایسے ہی تماشے دیکھ رہے تھے کہ تماشے والے نے کہا: صاحبان! آپ اپنے دل میں کسی پھول کا خیال کریں۔ اس کے بعد اُس نے سب کے ذہن میں سوچے ہوئے پھول کے بارہ میں بتادیا ۔ ڈپٹی کمشنر صاحب تو کرسی سے اچھل پڑے کیونکہ انہوں نے گوبھی کا پھول سوچا تھا جو مسمرائزر نے بتادیا تھا۔ اسی طرح یہ لوگ نوٹوں کے نمبر، گھڑی کا وقت اور بعض باتیں جو کاغذ پر لکھ کر محفوظ کر لی جائیں اپنے معمول کی معرفت بتا دیتے ہیں حالانکہ اس لڑکے کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہوتی ہے۔ ان سب تماشوں کو دیکھ کر جو نتیجہ میں نے نکالا ہے وہ یہ ہے کہ مسمرائزر اپنے عمل کے زور سے غیب حاضر بتا سکتا ہے یعنی ایسی مخفی چیز جو موجود ہو۔ لیکن غیب غائب یعنی ایسی غیب کی بات جو آئندہ ہونے والی ہو، نہیں بتا سکتا۔ پس مسمرائزر کا غیب کی موجودہ باتوں کے متعلق تو ٹھیک ہوسکتا ہے مگر وہ پیشگوئی نہیں کرسکتا۔ لوگ غلطی سے ان دونوں باتوں کو ملا دیتے ہیں اور اُس کو غیب دان سمجھ لیتے ہیں۔
یوگ بھی مسمریزم ہی کی مشق ہے۔ یوگی بھی اپنی مشق کے زور سے یہ تو بتادے گا کہ کسی بند خط میں کیا مضمون ہے (کیونکہ یہ غیب حاضر ہے) لیکن یہ نہ بتاسکے گا کہ اگلے برس مجھے اس مضمون کا خط فلاں شخص کی طرف سے ملے گا (کیونکہ یہ پیشگوئی ہے)۔
اس علم کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ ہر مذہب والا بلکہ لا مذہب دہریہ بھی اس کی مشق کرسکتا ہے اور تماشے دکھا سکتا ہے۔ غلطی سے آج کل اسی طاقت کا نام لوگوں نے مذہب کی روحانیت رکھ چھوڑا ہے۔ بیماریوں کا اچھا کرنا، توجہ دینا، دلوں پر اثر ڈالنا، بیہوش کر دینا وغیرہ یہ سب مسمریزم ہے اور ہر مذہب والا کر سکتا ہے بشرطیکہ اس میں قدرتی طور پر یہ طاقت زیادہ ہو اور مشق اچھی ہو۔ بعض آدمی قدرتی طور پر توجہ یعنی مسمریزم کی طاقت اپنے اندر زیادہ رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ اگر مشق کریں تو بیہوش کرنا تو کیا ایک نظر سے انسان کو مار بھی سکتے ہیں۔ مگر اس کا تعلق مذہب سے کیا؟ آدمی تو لٹھ سے بھی مارا جاسکتا ہے۔ پس مذہب صرف دو چیزوں کا مجموعہ ہے: خدا شناسی اور اعلیٰ اخلاق۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں