مولانا ظفر علی خان کا عبرتناک انجام
مولانا ظفر علی خان صاحب ایک صحافی ہونے کے علاوہ مشہور سیاسی و مذہبی لیڈر بھی تھے اور ان کی زبان اور قلم نے جماعت احمدیہ کے خلاف بھی خوب زہر اگلا تھا۔ لیکن یہی مولانا جب زندگی کے آخری ایام میں عبرتناک حالات کا شکار ہوئے تو فقط حضرت مصلح موعودؓ کی ذات گرامی ہی تھی جس نے ان کے علاج اور تیمارداری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ مولانا کے انہی ایام کی تصویر کشی محترم احتجاج علی زبیری صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’بدر‘‘ قادیان 14؍ مارچ 1996ء میں یوں کی گئی ہے:-
’’ مولانا کو ان کا ایک نوکر ہر روز صبح کوٹھی کی لان میں کرسی پر بٹھا دیا کرتا تھا اور کرسی کے ساتھ لگی پیٹی مولانا کی کمر سے باندھ دیتا تھا تا کہ مولانا بے ہوشی یا نیم بیہوشی میں کرسی سے گر نہ پڑیں۔ مولانا غروب آفتاب تک اسی لان میں کرسی پر تن تنہا پڑے رہا کرتے اور کبھی کسی نے ان کے پاس گھر کا آدمی تو کیا کوئی خدمتگار بھی نہ دیکھا۔ مولانا کی اس وقت کی حالت یہ تھی کہ وہ نہ بول سکتے تھے نہ چل پھر سکتے تھے اور نہ اٹھ بیٹھ سکتے تھے ، مجبور اور معذور تھے۔ منہ سے ہر وقت رال ٹپکتی رہتی تھی، اسی کرسی پر ان کا پیشاب پاخانہ نکل جاتا۔ ‘‘