مکرمہ رشیدہ تسنیم صاحبہ کی ڈائری سے

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 14جنوری 2022ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 31؍مئی 2013ء میں مکرم پروفیسر محمد شریف خان صاحب نے اپنی اہلیہ محترمہ پروفیسر رشیدہ تسنیم خان صاحبہ کی ڈائری کے کچھ دلچسپ صفحات نقل کیے ہیں۔ قبل ازیں مرحومہ کے تفصیلی ذکرخیر پر مبنی محترم خان صاحب کا ایک مضمون 8؍دسمبر 2017ء کے شمارے میں ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بن چکا ہے۔

پروفیسر محمد شریف خان صاحب

مرحومہ اپنی ڈائری میں رقمطراز ہیں کہ میری پیدائش بڈھاگورایہ ضلع سیالکوٹ میں دسمبر 1937ء میں ہوئی۔ ابّاجی کو اُن کے اخلاق اور مالی حالت کی وجہ سے گاؤں میں ایک مخصوص مقام حاصل تھا۔ انہوں نے بہت سے بچوں اور بڑوں کو قرآن کریم بھی پڑھایا تھا۔ وہ وٹرنری ہسپتال کے انچارج تھے۔ گاؤں میں احمدیت کا تعارف بھی آپ کی وجہ سے ہوا۔ بعد میں وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اچھے سکولوں والے قصبوں میں تبدیلیاں کرواتے رہتے۔ چنانچہ تقسیمِ ہند کے بعد سب سے پہلے ہم خانقاہ ڈوگراں میں بھی رہے۔ ابّاجی کا ایک انگریز دوست ولایت جاتے ہوئے انہیں ایک خوبصورت کالا جرمن شیفرڈ تحفے میں دے گیا۔ (ویسے بھی اتنا قیمتی کتا ایک وٹرنری ڈاکٹر کے پاس ہی زیادہ محفوظ تھا) اُس کا نام تو پتہ نہیں کیا تھا لیکن گھر میں اسے کالوؔ کہا جاتا۔ جب ہماری والدہ ہم تینوں بہنوں کو ابّاجی کے پاس ہسپتال بھجواتیں تو کبھی بارش کی وجہ سے گاؤں کی کچی گلیاں کیچڑ سے بھری ہوتیں اور آپاجی کالوؔ کو آواز دے کر کہتیں کہ بچوں کو سوکھے رستے سے لے کر جانا۔ چنانچہ کالوؔ ہمارے آگے آگے نہایت احتیاط سے دیواروں کے ساتھ ساتھ چلتا اور ابّاجی کے پاس پہنچادیتا۔ ابّاجی سے سر پر ہاتھ پھراکر سکون سے وہاں بیٹھ جاتا۔
پھر ہم شاہ کوٹ بھی رہے۔ جہاں مڈل کے امتحان میں ہم تینوں بہنیں ضلع بھر میں اوّل آئیں۔ یہاں اکثر راستہ چلتے لوگ ہمیں چھیڑنے کے لیے پوچھتے کہ آپ کون ہیں؟ (یعنی مذہب کیا ہے؟) ہم کہتے: سچے احمدی۔ تو شرارت سے ہنس دیتے۔ شاہ کوٹ میں ہائی سکول نہ ہونے کی وجہ سے ابّاجی نے ٹرانسفر حافظ آباد کروالی۔ گھر کے پیچھے خالی جگہ تھی اور پھر ایک امام باڑہ تھا جہاں سفید رنگ کا ایک گھوڑا بندھا رہتا اور چار یا پانچ ملنگ صرف دھوتیوں میں ملبوس دن کے نو دس بجے کونڈی کے گرد بیٹھ کر اس میں کچھ رگڑ تے اور ایک گندے سے پیالے میں کوئی پتلی سی سبز لسّی انڈیل کر باری باری پی کر زور سے ‘یاعلی’کا نعرہ لگاتے۔ اُنہی دنوں امام باڑے میں ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں احمدیوں کو خوب کوسا گیا۔ جلسے کے بعد وہاں سے آٹھ دس عورتیں ہمارے گھر پانی پینے آئیں۔ آپاجی نے پانی میں برف ملائی اور کہا کہ لو پیو مگر ہیں ہم قادیانی۔ اس پر وہ شرمندہ ہوکر پیاسی ہی بھاگ گئیں۔
ایک بار ابّاجی قریبی دیہات کے دورے پر گئے تو ایک جلوس ہسپتال کے احاطے میں آگیا۔ جلوس میں شامل اوباش اپنے ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھائے ختم نبوت کے نعرے لگارہے تھے۔ کسی نے اپنی تقریر میں ہمیں مخاطب کرکے کہا کہ اپنے باپ کو سمجھالو کہ وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجائے ورنہ تم جانتی ہو کہ کشمیری کتنے بُرے لوگ ہوتے ہیں۔ آپاجی اور بڑی بہن تو سجدے میں گرگئیں اور خداتعالیٰ سے مدد مانگنے لگیں۔ حسنِ اتفاق سے عین اُسی وقت ابّاجی سائیکل پر قریبی دیہات کا دورہ کرکے ہسپتال میں داخل ہوئے تو فوراً پلٹ کر تھانے چلے گئے۔ تھانیدار چند سپاہیوں کو لے کر آیا اور ایک للکار کے ساتھ دو ہوائی فائر کیے تو لوگ ایک دوسرے کو روندتے ہوئے بھاگے اور میدان خالی ہوگیا۔ اس واقعے کے بعد ابّاجی نے دارالصدر شمالی ربوہ میں جلدی جلدی اپنا مکان تعمیر کروایا۔ ابھی اندر پلستر بھی نہیں ہوا تھا اور بجلی بھی نہیں لگی تھی کہ ہمیں آپاجی کے ساتھ 1952ء میں ربوہ بھیج دیا۔
ربوہ کا ماحول بہت پاکیزہ تھا۔ کسی گھر سے گانے کی آواز نہیں آتی تھی۔ نمازوں کے اوقات میں مساجد میں لوگ کثرت سے جاتے۔ سب احمدی مل جُل کر رشتے داروں کی طرح رہتے۔ جلسے، اجلاس، قرآن کلاس، دینی امتحانات، علمی مقابلے، کڑھائی سلائی اور روٹی پکائی کے مقابلے۔ رات ہوتے ہی ہم سب بہن بھائی صحن میں ایک بڑے میز پر ٹیبل لیمپ رکھ کر اردگرد پڑھنے کے لیے بیٹھ جاتے۔ پڑھتے کم اور پتنگوں کو ایک دوسرے پر زیادہ پھینکتے۔ رات دس بجے آپاجی ہمیں گُڑ والی مزیدار چائے پلاتیں جو ہمارے لیے سونے کی گھنٹی ہوتی۔ چار کنال کے صحن میں ولایتی کیکر کی پھلیاں گرتی رہتیں۔ ربوہ کی راتیں کافی ٹھنڈی ہوتیں اور تیز ہوا کی وجہ سے مچھر بھی کم ہوتا۔ پانی نمکین تھا اور سارے علاقے میں سایہ دار درخت نہ ہونے کے برابر تھے۔ صحن کچا تھا اور آندھیاں آتیں تو گھر مزید دھول سے بھر جاتا۔ ولایتی مرغیاں بےحساب انڈے دیتیں جن سے حلوہ بنتا۔ ایک دن بھائی اور ماموں کسی قریبی کھیت سے ایک کیکر گاچ کر لائے جسے سب نے گڑھا کھود کر لگادیا اور اُسے اتنا پانی دیا کہ چند ہی ماہ میں خوب تناور ہوگیا۔ یہ کیکر اب بھی اتنے موٹے تنے کے ساتھ موجود ہے کہ دو آدمیوں کے جپھوں میں مشکل سے آتا ہے۔ جب کبھی اسے کٹوانے کی تجویز ہوتی ہے تو اس کی زندگی کے کئی حامی کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ویسے بھی یہ سراپا فیض ہے۔ رات کو بےشمار چڑیاں اس پر بسیرا کرتی ہیں اور دن کو اس کی چھاؤں میں کئی لوگ اپنے شغل میں مصروف رہتے ہیں۔ ضرورت مند اس کی پھلیاں جلانے کے لیے لے جاتے ہیں۔ ……
مرحومہ کی ڈائری میں متعدد دعائیہ اشعار بھی درج ہیں جن سے آپ کی محبت الٰہی کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ مثلاً:

ہاتھوں میں لیے کاسۂ دل آئے ہیں مولا
خالی نہ پھریں تیرے طلبگارِ محبت
………………………
دونوں جہاں میں مایہ راحت تمہی تو ہو
جو تم سے مانگتا ہوں وہ دولت تمہی تو ہو
………………………
تری نصرت سے ساری مشکلیں آسان ہوجائیں
ہزاروں رحمتیں ہوں، فضل کے سامان پیدا کر
جو تیرے عاشق صادق ہوں، فخر آلِ احمدؐ ہوں
الٰہی! نسل سے میری تُو وہ انسان پیدا کر
………………………
میرا کوئی نہیں ہے ٹھکانا ترے سوا
تیرے سِوا کسی کے بھی قابل نہیں ہوں مَیں

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں