مکرمہ نجم النساء صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21نومبر 2011ء میں شائع ہونے والے مکرمہ الف۔ ق صاحبہ کے مضمون میں اُن کی والدہ محترمہ نجم النساء صاحبہ (اہلیہ مکرم عبدالرشید قریشی صاحب ایڈووکیٹ سابق وکیل المال اوّل تحریک جدید ربوہ) کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔
محترمہ نجم النساء صاحب 14فروری 2011ء کو 80 برس کی عمر میں وفات پاکر ربوہ کے عام قبرستان میں مدفون ہوئیں ۔ آپ تہجد گزار، دعاگو، قرآن پاک کی تلاوت کرنے والی، متوکّل، نہایت ایماندار اور ہمیشہ سچ بولنے والی تھیں ۔ بے حد صابر و شاکر تھیں اور کبھی کسی کابرا نہ چاہتی تھیں ۔ استغفار، تسبیح اور درود شریف بہت زیادہ پڑھا کرتی تھیں اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتی تھیں ۔ ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ اپنا اعمال نامہ ٹھیک ہونا چاہئے۔ چندے باقاعدگی سے ادا کرتی تھیں ۔ لجنہ سے ہمیشہ تعاون کیا۔
آپ نماز کی اتنی پابند تھیں کہ 2007ء میں فالج کے نتیجہ میں جب نصف دماغ کام نہیں کرتا تھا تو بھی جس وقت خیال آتا تو نماز پڑھنی شروع کر دیتی تھیں ۔ اگر کہا جاتا کہ یہ نماز کا وقت نہیں تھا تو جواب دیتیں کہ یہ میرا اور میرے خدا کا معاملہ ہے۔ پھر آہستہ آہستہ حضور انور کی دعاؤں سے خداتعالیٰ نے آپ کو شفا عطا فرمادی۔
ہمیں تو آپ کی قبولیتِ دعا کا بہت یقین تھا لیکن غیرازجماعت بھی دعا کروایا کرتے تھے اور پورا یقین رکھتے تھے کہ آپ کی دعا سے کام ہوگیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کے محلہ میں احمدیت کی بہت مخالفت تھی لیکن اس کے باوجود پوری گلی آپ کی بہت عزت کرتی تھی۔
آنے والے وقت کے بارے میں اکثر بتا دیا کرتی تھیں ۔ کوئی اچھی بات نہ ہوتی تو کہتیں کہ صدقہ دو اور بہت دعا کرو۔ اپنے خاوند کی وفات سے قریباً تین چار ماہ پہلے آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے کہ یقینا اس پر موت وارد ہوگی۔ ایک بار مجھے فون پر صرف اتنا کہا کہ تم، تمہارا میاں اور سب بچے دشمن سے بچنے کی دعا کیا کرو۔ چند دن کے بعد ہمارے گھر کے قریب رہنے والے چند مخالفین نے ہمیں شدید پریشان کرنا شروع کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں اُن سے نجات دی۔
میرا بھائی جب سری لنکا گیا تو اس کے ساتھ رہنے والے تین چار فیملیوں کے کیس Reject ہوگئے تو وہ بہت پریشان ہوگیا۔ اُس کے کہنے پر آپ نے دعا کی تو دوسرے تیسرے دن خواب میں دیکھا کہ اپنے بیٹے کو کہہ رہی ہیں کہ ’گھبرانے کی ضرورت نہیں ، میر اہاتھ تھام لو، مَیں تم کو اور تمہاری فیملی کو دریا پار کروا دیتی ہوں ‘۔ چنانچہ صبح سب کو کہتی رہیں کہ آج مَیں نے اس کو دریا پار کروا دیا ہے اور اب اس کا کیس پاس ہو جائے گا۔ دوسرے ہی دن بیٹے کا پیغام ملا کہ اُس کا کیس پاس ہو گیا ہے۔
مرحومہ کا اپنا کوئی بہن بھائی نہ تھا۔ چنانچہ دُور کے رشتہ داروں کے آنے سے بھی بہت خوش ہوتی تھیں ۔ کہتی تھیں کہ مہمان اپنے ساتھ رزق لے کر آتا ہے۔
آپ نے تقریباً 32 سال کا لمبا عرصہ بیوگی میں گزارا۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کا تنہا خیال رکھا۔ سب بچوں کی شادیاں کیں ۔ لیکن زندگی میں بہت نشیب و فراز بھی آتے رہے۔ اپنے بڑھاپے میں اپنی بڑی بیٹی اور سب سے چھوٹے داماد کا صدمہ برداشت کیا۔ کچھ عرصے بعد دو بڑے داماد بھی وفات پاگئے۔ ہر قسم کے دکھ میں آپ نے ہمیشہ اپنے خدا کا ہی سہارا تلاش کیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں