مکرم انجینئر شاہین سیف اللہ خانصاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15 ستمبر 2010ء میں مکرم چودھری محمد طفیل صاحب کے قلم سے محترم انجینئر شاہین سیف اللہ خان صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے جو 1945ء میں پیدا ہوئے اور 30 مئی 2009ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ خاکسار 1965ء میں واپڈا میں سینئر سٹور کیپر بھرتی ہوا۔ 1972ء میں میرا تعارف محترم شاہین سیف اللہ صاحب سے ہوا جو SDO بن کر تعینات ہوئے تھے۔ پہلی ہی ملاقات ایسے تھی جیسے برسوں سے جانتے ہوں۔
آپ کا خط ایسا تھا جیسے کاغذ پر موتی بکھیر رہے ہوں۔ کام میں لگن کی مثال نہیں مل سکتی۔ اگر ڈرائیور لیٹ ہوا یا گاڑی خراب ہوئی تو سائٹ پر پیدل چل پڑتے۔ کسی ملازم کا بل رُک گیا، اُس نے وجہ بتائی کہ اکاؤنٹس والے کمیشن مانگتے ہیں تو اپنی جیب سے پیسے دے دیئے اور بل پھاڑ دیا۔ آپ کے ایکسیئن نے بتایا کہ مہمانوں کے لئے اپنی تنخواہ سے ادائیگی کرتے ہیں۔ بلکہ آپ نے اپنے اوورسیئروں کو ہدایت دی ہوئی تھی کہ میٹیریل میں کنجوسی نہیں کرنی، کم ہو جائے گا تو اَور مہیا کردوں گا لیکن بچانے کی کوشش نہ کریں۔
انتہا کے خوددار تھے۔ کبھی بلیک میل نہیں ہوئے۔ ایک رات کام جاری تھا کہ لیبر نے ہڑتال کردی۔ آپ نے اوورسیئروں اور دوسرے سٹاف کو ساتھ لیا اور خود بھی شامل ہوگئے اور کام شروع کردیا۔ تھوڑی دیر بعد لیبر واپس آگئی۔
پھر وہ عراق چلے گئے لیکن ہمارا رابطہ برابر رہا۔ میں اُن کو جماعتی اخبارات و رسائل بھجواتا رہتا۔ 1981ء میں انہوں نے مجھے اپنی کمپنی میں سٹور سپروائزر لگوادیا تو مَیں بھی بغداد چلا گیا۔ کافی مدّت بعد ہم پاکستان آگئے۔ مَیں واپڈا میں واپس چلا گیا اور وہ یہاں ایک کمپنی کو چھوڑتے تو دوسری کمپنی انتظار میں ہوتی تھی۔ اتنا ایماندار، قابل، محنتی، تجربہ کار انجینئر کہاں ملتا تھا۔ آخر موٹروے پر کورین کمپنی کے چیف انجینئر کے عہدے پر تعینات ہوگئے۔
آپ اپنے کام میں بہت سنجیدہ تھے لیکن ویسے بہت زندہ دل اور خوش دل شخص تھے۔ کہا کرتے تھے کہ دوستی مجھ سے ہونی چاہئے، میرے عہدہ سے نہیں۔
آپ کی جماعت سے لگن انتہائی درجہ کی تھی۔ چکوال میں قیام کے دوران ضلعی امیر بھی رہے۔ موصی تھے اور چندوں کے معاملہ میں سیکرٹری مال کے پاس خود جاتے اور اپنے وعدوں میں بڑھ چڑھ کر چندہ دیتے۔ خلیفہ وقت کی طرف سے کوئی نئی تحریک آتی تو بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ غریب احمدی کے لئے بڑا درد رکھنے والے تھے۔ نڈر، بے باک، مخلص اور سچے احمدی تھے۔ حقوق العباد میں بھی انتہائی مخلص تھے۔
ایک بار آپ کے متعلق اخبار میں خبر پڑھی کہ موٹروے پر ایک قادیانی انجینئر تبلیغ کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے اور لوگوں نے ان کو بہت مارا ہے ۔ آپ نے بتایا کہ یہ سب کچھ ایک رکنِ اسمبلی نے کروایا تھا جس نے اپنے لوگ کمپنی میں بھرتی کروادیئے لیکن کام پھر بھی اُن سے اپنا ہی لیتا رہا۔ جب کمپنی کے کہنے پر مَیں نے اُن نااہلوں کو فارغ کیا تو انہوں نے تبلیغ کا بہانہ بناکر ہنگامہ کردیا اور پھر مجھے مارمار کر پھینک دیا تھا۔
کچھ عرصہ بعد جب آپ نے اپنی نگرانی میں موٹروے کے کنارے پر لگائے گئے پودوں کی گنتی شروع کروائی تو معلوم ہوا کہ لاکھوں پودے لگائے تو نہیں گئے مگر بل بنوا لیا ہے۔ پہلے تو ٹھیکیداروں نے کوشش کی کہ کرپشن چل جائے لیکن بے سود! پھر ٹھیکیدار کے گماشتوں نے سائٹ پر شاہین صاحب کو پکڑ کر کافی مارا پیٹا اور وہیں پھینک گئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دوبارہ آپ کو بچالیا۔ شاہین صاحب اصول پسند آدمی تھے کبھی اصولوں کے خلاف سمجھوتہ نہیں کیا۔ کمیشن اور سفارشیں کبھی آپ کا راستہ نہ روک سکے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کے دستخط ہونے کے بعد کوئی کمپنی کسی بِل کو نہیں روکتی تھی۔ آپ کے کام کی مہارت اور دیانتداری کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قصر خلافت ربوہ کی تعمیر کے متعلق بعض مسائل سامنے آئے تو اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے آپ سے رپورٹ مانگی۔ حضورؒ آپ کی رپورٹ سے اتنا خوش ہوئے کہ کچھ نقد رقم بطور انعام بھی عطا فرمائی۔
جب موٹروے کی کرپشن کی انکوائری کی بات چل رہی تھی تو جماعت اسلامی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے تجویز دی کہ یہ انکوائری شاہین سیف اللہ کو دیں۔ گو وہ احمدی ہے لیکن اس سے بہتر اور کوئی نہیں کرسکتا۔
آپ کے پسماندگان میں ایک بیوہ اور ایک شادی شدہ بیٹی شامل ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں