مکرم را جہ علی محمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍اکتوبر 2011ء میں مکرم سیف اللہ وڑائچ صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جو مکرم راجہ علی محمد صاحب کے ذکرخیر پر مشتمل ہے۔
مکرم راجہ علی محمد صاحب PCS آفیسر تھے اور افسر مال کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ جماعت احمدیہ گجرات کے امیر ضلع رہے اور اپنے پیچھے نیک اولاد چھوڑی۔ آپ چوآسیدن شاہ کے قریبی گاؤں چھمبی کے رہائشی تھے۔ قیام پاکستان سے قبل قادیان میں مقیم تھے اور قیام پاکستان کے بعد پہلے گجرات اور پھر لاہور میں مستقل رہائش اختیار کی۔ آپ ایک خواب کے ذریعہ احمدی ہوئے تھے۔ بعد وفات 1972ء میں بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔
را جہ صاحب مرحوم بڑی گوناگوں شخصیت کے حامل تھے۔ میرے والد محترم چوہدری عنایت اللہ صاحب کو انہوں نے اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا۔ اس لحاظ سے وہ مجھے اپنے پوتوں جیسا سمجھتے تھے اور میں روزانہ کالج سے واپسی پر اُن کے گھر آتا۔ وہ انگلش کا سبق یاد کراتے اور اکثر دوپہر کا کھانا کھلاتے۔ بڑے مہمان نواز، بارعب شخصیت کے مالک، صاحب علم اور پابند صوم و صلوٰۃ تھے۔ جماعت کے عہدیدار اکثر ان کے ہاں تشریف لاتے رہتے تھے۔
1964ء میں را جہ صاحب نے چرچ روڈ گجرات پر ایک قطعہ اراضی میاں مشتاق پگانوالہ کو بیچا اور 65 ہزار زبانی بیعانہ وصول کیا۔ بیعانہ کے بعد انہوں نے چاردیواری بنالی اور ایک دروازہ راجہ صاحب کی باقی زمین کی طرف رکھ لیا جوکہ غلط تھا۔ راجہ صاحب نے ڈپٹی کمشنر صاحب کو درخواست دی اور حالات بیان کئے۔ وہ کہنے لگا کہ آپ نے جو بیعانہ لیا ہے کہیں کہ میں نے نہیں لیا تو پلاٹ خالی کروالیتے ہیں ۔ مگر راجہ صاحب نے کہا کہ میں اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ میں نے بیعانہ لیا ہے۔ DC آپ کی ایمانداری پر حیران رہ گیا کہ ایک تو دوسری پارٹی زیادتی کررہی ہے اور یہ اپنی بات پر قائم ہیں ۔ بہرحال معاملہ رفع دفع کروادیا۔
آپ نصیحت کیا کرتے تھے کہ جب کبھی کسی کے ساتھ رشتہ داری کرو تو دعا کے علاوہ دیکھو کہ ان کا پہلے رشتہ داروں کے ساتھ کیسا سلوک ہے۔ اگر پہلوں کے ساتھ اچھا ہے تو آپ کے ساتھ بھی اچھا ہوگا۔
را جہ صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ اپنے گاؤں میں کوٹ راجگان میں ایک احمدیہ مسجد بناؤں ۔ چنانچہ آپ نے بڑی محنت اور لگن سے ایک چھوٹی سی مسجد ’’مسجد طیبہ‘‘ اپنی جیب سے بنوائی جو 1967ء میں مکمل ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں