مکرم صوبیدار غلام سرور صاحب شہید اور مکرم اسرار احمد خاں صاحب شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ مارچ 2012ء میں شامل اشاعت درج ذیل شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
محترم صوبیدار غلام سرور خان صاحب پاک فوج کے محکمہ انٹیلی جنس میں ایریا افسر تھے۔آپ کا آبائی گاؤں مَیْنِی ہے جو ضلع مردان میں قصبہ ٹوپی سے دس کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ ٹوپی میں جب حالات خراب ہو رہے تھے تو ایک غیراحمدی شخص نے آپ کو بتایا کہ لوگ آپ کو قتل کرنے کا پروگرام بناچکے ہیں اس لیے آپ کہیں اور چلے جائیں۔ آپ نے جواب دیا کہ اگر مجھے اسلام کی خاطر شہادت نصیب ہو جائے تو اس سے بڑھ کر اور کونسی خوش بختی اور سعادت ہوگی۔
9؍جون1974ء کو قصبہ ٹوپی کے محلہ خوشحال آباد میں شرپسندوں نے قتل و غارت، لُوٹ مار اور آتشزدگی کا بازار گرم کیے رکھا۔ اُس دن آٹھ احمدیوں کو شہید کیا گیا اور ستّر سے زائد مکانات، ڈیوڑھیاں، حجرے، بنگلے اور دکانیں تباہ کی گئیں۔ محترم صوبیدار صاحب اور آپ کا بھتیجا اسرار احمد گھر پر ہی موجود تھے کہ آپ کے مکانوں کی پچھلی طرف واقع قبرستان سے شرپسند حملہ آور ہوئے۔ اگرچہ آپ نے ہوائی فائر کرکے اُن کو ڈرایا مگر وہ تعداد میں بہت زیادہ تھے۔ ان میں سے ایک شرپسند نے آپ کو گولی مار دی جس سے آپ موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ پھر آپ کے بے جان جسم پر بدبختوں نے گولیوں کی بوچھاڑ کردی اور نعش کو گھسیٹ کر گلی کے چوراہے میں لے آئے اور پتھر مار مار کر بُری طرح مسخ کردیا۔ شہید مرحوم کی عمر 52 سال تھی اور آپ موصی تھے لیکن حالات کی سنگینی کے پیش نظر آپ کو وہیں دفن کردیا گیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے اس حوالے سے فرمایا کہ شہید جہاں دفن ہوتا ہے وہی جگہ اس کے لیے جنت ہوتی ہے۔ ایک وقت آئے گا جب ان شہداء کی قربانی رنگ لائے گی اور لوگ کہیں گے کہ یہ خوش قسمت لوگ ہیں جن کو احمدیت کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کی توفیق ملی۔
البتہ حضورؒ کی اجازت سے بہشتی مقبرہ میں آپ کا یادگاری کتبہ لگادیا گیا۔
شہید مرحوم نے اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور تین بیٹیاں یادگار چھوڑیں۔ جس شخص نے آپ کو شہید کیا تھا، اس پر جولائی 1974ء میں آسمانی بجلی گری اور وہ جھلس کر مرگیا۔
محترم صوبیدار صاحب کے سگے بھتیجے مکرم اسرار احمد خان صاحب کو بھی آپ کے ساتھ ہی شہید کیا گیاتھا۔ وہ الحاج سلطان سرور خان صاحب کے صاحبزادے تھے۔ شہادت سے کچھ عرصہ پہلے اپنے والد محترم کے ہمراہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرچکے تھے۔ شہادت کے وقت عمر سولہ سترہ سال تھی اور غیرشادی شدہ تھے۔ آپ کی شہادت کنپٹی پر پستول کے فائر سے ہوئی۔ پھر شہادت کے بعد آپ پرپتھراؤ کیا گیا،خنجروں سے وار کیے گئے اور آخر ہجوم نے ان کی دونوں ٹانگوں کو مخالف سمتوں میں کھینچتے ہوئے ان کی لاش کو دونیم کردیا۔ ایک عورت یہ لرزہ براندام کرنے والاخونی کھیل نہ دیکھ سکی اور زور زور سے چیخنے لگی اور بلند آواز سے بددعائیں دینے لگی۔ اس پر قاتلوں کی رائفلوں کارخ اس کی طرف پھر گیا مگر کچھ لوگ آڑے آگئے کہ یہ قادیانی نہیں ہے۔ غیراحمدی عینی شاہدین کے مطابق جس شخص نے اسرار احمد خان سے بربریت کا سلوک کیا وہ اُسی رات پاگل ہوگیا اور بعدازاں پاگل خانہ میں بند کردیا گیا۔ اس کی بیوی بھی ذہنی توازن کھوبیٹھی اور گھر میں ہر وقت رسّیوں سے بندھی رہتی۔
اسرار شہید کے پسماندگان میں والد اور والدہ کے علاوہ دو بھائی اور پانچ بہنیں شامل تھیں۔ ایک تیسرا بھائی اپنے بھائی کی شہادت کے بعد پیدا ہوا تو والدین نے اس کا نام شہید بیٹے کے نام پر اسرار احمد خان وقار رکھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں