مکرم ماسٹر بشارت احمد صاحب آف تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 24دسمبر 2021ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍مئی 2013ء میں مکرم ماسٹر ملک محمد اعظم صاحب کے قلم سے مکرم ماسٹر بشارت احمد صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ قبل ازیں آپ کا تذکرہ 24؍جنوری 2014ء اور 4؍اپریل 2014ء کے شماروں کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں بھی کیا جاچکا ہے۔
محترم ماسٹر بشارت احمد صاحب نے 15؍نومبر 2009ء کو لندن میں وفات پائی۔ آپ 26 دسمبر 1935ء کو قادیان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مکرم ماسٹر چراغ دین صاحب عارف والا ضلع ساہیوال میں سکول ٹیچر تھے۔ آپ نے میٹرک عارف والا سے ہی پاس کیا۔ پھر بی اے، بی ایڈ لاہور سے کیا اور 1960ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ سے بطور ٹیچر ملازمت کا آغاز کیا۔ ابتداء سے ہی بہت محنتی تھے اس لئے دوران ملازمت ایم اے پھر ایم ایڈ کرلیا۔ اسی دوران زندگی بھی وقف کر دی مگر ارشاد ہوا کہ جب ضرورت ہوگی تو بلوالیا جائے گا۔ یوں ساری عمر زندگی وقف کے طور پر گزار دی۔ 1961ء میں نظام وصیت سے منسلک ہوئے۔ ایک بار افریقہ جانے کا پروگرام بنایا۔ پوری تیاری کرکے اپنی والدہ محترمہ سے اجازت چاہی مگر انہوں نے اپنے لخت جگر کو اپنے سے جدا ہونے کی اجازت نہ دی تو آپ نے تمام کاغذات پھاڑ دیے اور بخوشی ساری عمر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کی ملازمت میں گزاردی۔ 1972ء میں سکول قومی تحویل میں لے لیا گیا۔ 1985ء میں جن آٹھ سینئر اساتذہ کو ہیڈماسٹر بنا کر باہر بھجوایا گیا ان میں آپ بھی شامل تھے۔ لیکن آپ نے ربوہ سے باہرجانا گوارا نہ کیا اور ہیڈماسٹر شپ لینے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد بھی کئی بار آرڈر آئے مگر ہر دفعہ انکار کر دیتے۔

محترم ماسٹر محمداعظم صاحب

ایک دفعہ خاکسار نے عرض کیا کہ احمدی تو جہاں جاتا ہے جماعت احمدیہ کا نمائندہ ہوتا ہے، آپ بھی کسی سکول میں چلے جائیں۔ گویا ہوئے کہ ایک تو مَیں خود باہر سے ربوہ کے پاکیزہ ماحول میں آیا ہوں اس لیے یہاں سے ہرگز باہر جانا نہیں چاہتا۔ دوسرا یہ کہ ہیڈماسٹر کا زائد الاؤنس صرف 50 روپے ملتا ہے۔ لوگ تو آنے بہانے سکول کے فنڈز ہڑپ کرنے کے لیے ہیڈماسٹر لگنے کی تگ و دو کرتے ہیں مگر احمدی تو ایسا ہرگز نہیں کرسکتے۔
آپ نے ہر ایک کے کام آنا گویا اپنے اوپر فرض کر رکھا تھا۔ کبھی کسی کو انکار یا معذرت نہ کرتے۔ نہایت نافع الناس وجود تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب سکول کے احمدی اساتذہ کے خلاف شکایات کے انبار لگانے کی مہم جاری ہوئی تب بھی آپ کی ہر دلعزیز شخصیت ایسی تھی کہ شدید دشمن بھی آپ پر انگلی نہ اٹھا سکتا تھا کیونکہ آپ نہایت ملائم اور دھیمی طبیعت کے مالک تھے۔ دوسرا یہ کہ سکول کے تمام جملہ امور سے گہری واقفیت رکھتے تھے جن سے غیر بھی فائدہ اٹھاتے تھے۔ حتیٰ کہ ہیڈ ماسٹر صاحبان اپنے سٹاف کی ACR تک آپ سے لکھواتے۔ چنانچہ آپ کے گھر پر بھی استادوں، استانیوں حتیٰ کہ ہیڈماسٹروں کا تانتا بندھا رہتا۔چنانچہ آپ کی کبھی مذہبی مخالفت نہ کی گئی۔ اگرچہ احمدیت کے دفاع میں آپ برہنہ تلوار تھے۔ لیکن کسی کو مخالفت کی جرأت ہی نہ ہوتی کیونکہ ایک تو آپ بلند اخلاق والے اور نہایت درجہ شریف النفس تھے۔ دوسرا یہ کہ معاند سوچتا کہ اگر یہ برا مناگئے تو کل کو ہمارے ضروری کام کون کرے گا۔ بہرحال بھرپور خدمت خلق میں ساری سروس گزار کر دسمبر 1995ء میں نہایت احترام سے آپ ریٹائر ہوئے۔ اس کے بعد بھی اساتذہ برادری ہمہ وقت گھر پر آکر آپ سے اپنے کام نکلوایا کرتی تھی جو آپ بلامعاوضہ محض خداتعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر کرتے تھے۔ کبھی طبیعت ناساز ہو تو بھی انکار نہ کرتے تھے بلکہ کہتے کہ فائل رکھ جائیں۔ کل آکر لے جانا، رات کو کر رکھوں گا۔ طبیعت بھی بڑی سادہ اور قناعت والی پائی تھی۔
ایک بار نصرت گرلز ہائی سکول میں ایک غیراحمدی کلرک تعینات ہوا جو اپنے کام میں کلیۃً اناڑی تھا مگر ہیڈمسٹریس صاحبہ احمدی تھیں۔ انہوں نے کلرک کو برادرم بشارت احمد صاحب کے گھر جملہ امور کی سرانجام دہی کے لئے بھجوایا۔ ایک عرصہ کے بعد اس کلرک نے اصل کام تو نہ سیکھا البتہ آپ کے اور ہیڈمسٹریس صاحبہ کے جعلی دستخط کرنے سیکھ لیے اور بینک سے سٹاف کی تنخواہ نکلوا کر ہیڈمسٹریس صاحبہ کو کہہ دیا کہ اس دفعہ تو تنخواہ ماسٹر بشارت صاحب نے نکلوائی ہے۔ آپ سے دریافت کیا گیا تو آپ نے بتایا کہ ہر گز نہیں نکلوائی۔ مختصراً یہ کہ اس کلرک اور آپ پر محکمانہ مقدمہ قائم ہو گیا۔ بڑے پریشان ہوئے کہ نیکیوں کا یہ کیا صلہ ملا ہے۔ کئی بار چنیوٹ عدالت میں جانا پڑا۔ چونکہ تہجد گزار اور دعا گو تو بہت تھے اور اپنی دیانتداری میں بھی مسلمہ حقیقت تھے مگر یہ ایک ناگہانی آفت جو آن پڑی تو دن رات اپنے رب کریم کے حضور بہت تڑپے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی گریہ و زاری کو قبول فرمایا اور اُس کلرک نے ایک روز ہیڈمسٹریس صاحبہ کے پاس آکر اقبال جرم کرلیا اور معافی ملنے پر رقم واپس کر دی۔ یوں آپ باعزت بری ہوئے۔
آپ نہایت غریب پرور تھے۔ دل کھول کر صدقہ و خیرات کرتے تھے۔ لوگ اکثر آپ سے قرض وغیرہ بھی لیتے تھے جو آپ خوشدلی سے دے دیا کرتے تھے۔ بعض اوقات نقصان بھی اٹھاتے مگر صبر شکر کرکے بیٹھ رہتے۔ کوئی انضباطی کارروائی ہرگز نہ کرتے۔ کسی دوست کی بے وفائی کا ذکر تک نہ کرتے۔ ایک بار ان سے ایک دیرینہ دوست نے قرض لیا اور لمبا عرصہ واپس نہ کیا بلکہ بار بارمطالبہ پر بھی وہ لیت و لعل سے کام لیتے رہے تو ان سے مانگنا ہی چھوڑ دیا۔ خاکسار نے کہا کہ قضا میں کیس کریں تو فرمایا کہ نہیں، ان سے میرے پرانے تعلقات ہیں اس لئے معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑتا ہوں۔
خاکسار نے بھی بارہا ان سے ہزاروں کے حساب سے قرض لیا۔ ضمناً ایک واقعہ کا ذکر کرتا ہوں جس سے قرض دینے میں ان کی خلوص نیت کا پتہ ملتا ہے اور جو مجھ پر ان کا احسان عظیم بھی ہے۔ 1993ء میں میرے بڑے بیٹے ڈاکٹر فرید احمد احسن نے ایف آر سی ایس کا امتحان دینے برطانیہ آنا تھا۔ ویزا کے حصول کے لئے بینک سٹیٹمنٹ لگانا ہوتی ہے اور خاکسار کے اکاؤنٹ میں بمشکل سترہزار روپے تھے اور کوشش تھی کہ اسّی ہزار مزید ہوں تو کم ازکم ڈیڑھ لاکھ کی بینک سٹیٹمنٹ لگا دی جائے۔ بینک کے ایک آفیسر نے چالیس ہزار روپے دینے کی حامی بھرتے ہوئے مزید چالیس ہزار کے انتظام کا کہا۔ خاکسار نے مجبوراً آپ سے ذکر کیا تو فرمایا کہ تم نے کیوں نہ مجھ سے ہی اسّی ہزار مانگ لیے، کیوں اِدھر اُدھر کوشش کرتے رہے ہو۔ عرض کیا بار بار آپ سے لینا، اس دفعہ مجھے سخت حجاب ہو رہا تھا کہ آپ کچھ محسوس نہ کریں۔ آپ نے محبت بھری خفگی کا اظہار کرتے ہوئے جھٹ سے اسّی ہزار روپے کا چیک کاٹ دیا۔ عرض کیا صرف چالیس ہزار درکار ہیں۔ فرمایا نہیں وہ چالیس ہزار ابھی ان کو واپس کردو اور میرے یہ اسّی ہزار جب ہوں گے واپس کردینا۔ خیراگلے روز خاکسار اپنے ذاتی اکاؤنٹ کا اسّی ہزار کا چیک کاٹ کر تسلی کے لئے دینے آیا کہ ایک ماہ بعد رقم نکلوا لیں نیز دلی شکریہ ادا کیا۔ فرمایا شکریہ کا کیا سوال ہے اور یہ چیک واپس لے جاؤ مجھے تم پر اعتماد ہے، میری رقم جب دل کرے واپس کر دینا۔ القصہ میرا یہ بیٹا برطانیہ میں بطور سپیشلسٹ کام کررہا ہے اور ان کی نیکی کا صدقہ جاریہ ہے۔
ایک بار سکول میں تنخواہ آئی تو آپ اس روز رخصت پر تھے۔ کلرک نے خاکسار کے ہاتھ ان کی تنخواہ گھر بھجوادی جو کہ خاکسار ان کی بیگم صاحبہ کی خدمت میںپہنچا آیا۔ اگلے روز آپ سکول آئے تو خاکسار سے کہا کہ تم اچھے دوست ہو کہ ہمارے گھر لڑائی ڈلوادی ہے۔ پھر مسکرا کر فرمایا کہ آپ ساری تنخواہ میری بیگم کو دے آئے ہیں۔میں تو اس میں سے چندوں اور ضرورت مندوں کا حصہ نکال کر باقی رقم اُن کے ہاتھ پر رکھتا ہوں۔
آپ اپنی برادری میں چھتری کی طرح سایہ دار تھے۔ بڑے ہی صائب الرائے تھے۔ لب و لہجہ نہایت نرم اور دھیما تھا۔ ایسی متحمل مزاجی اور نفاست سے بات کرتے کہ ہر کوئی توجہ سے سنتا اور قدر کی نظر سے دیکھتا۔ خوشی اور غمی کے ہر دو مواقع پر اخلاقی اقدار کا پاس رکھتے۔ کسی سے لڑائی جھگڑا تو درکنار خفا ہونا بھی پسند نہ تھا۔ اول تو آپ سے کسی کا زیادتی کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا لیکن اگر کوئی موقع ایسا ہوتا تو صبر اور درگزر سے کام لیتے تھے اور دوسروں کے حق میں دعا بھی کرتے۔ دوستوں، عزیزوں پر بے دریغ خرچ کر دیتے۔ مئی 1989ء میں خاکسار پر 298C کا مقدمہ بن گیا۔ علاوہ ازیں محکمانہ انکوائری بھی لگ گئی۔ الزام یہ تھا کہ خاکسار تبلیغ کرتا ہے اور بچوں کو منارۃ المسیح کا سٹکر کاپیوں و کتب پر چسپاں کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ انکوائری کے روز وہ سٹکر پیش کرکے مجھ سے جواب طلب کیا گیا۔ آپ میرے ہمراہ تھے۔ مَیں نے پریشانی میں آپ سےمشورہ مانگا تو آپ نے غور سے دیکھ کر بتایا کہ یہ تو مینار پاکستان کا سٹکر ہے۔ تب خاکسار نے جواب لکھا تو انکوائری آفیسر نے نہایت شرمندگی کا اظہار کیا اور محکمہ کو میرے حق میں رپورٹ کردی ۔ اس مقدمے میں خاکسار کو چنیوٹ، جھنگ اور ربوہ قریباً دو سال تک تاریخوں پر جانا پڑا۔ ہر پیشی پر آپ خاکسار کے ہمراہ ہوتے اور ہمہ وقت میری حوصلہ افزائی اور دلجوئی فرماتے۔
خاکسار 1960ء میں احمدی ہوا۔ 1961ء میں ربوہ آگیا۔ 1963ء میں دارالعلوم غربی میں اپنا مکان تعمیر کرکے رہائش اختیار کی۔ بعدہٗ محترم بشارت احمد صاحب بھی ہمارے محلہ میں ہی اپنا مکان تعمیر کرکے رہائش پذیر ہوئے۔خدام اور انصار میں ہر سطرح پر ہم دونوں کو اکٹھے کام کرنے کا موقع ملا۔ آپ بہت محنتی، فرض شناس اور وقت کی پابندی کرنے والے تھے۔ کبھی تکان کا اظہار نہ کرتے بلکہ بزلہ سنجی سے محفل کو خوش گوار بنائے رکھتے۔ صوم و صلوٰۃ کے حددرجہ پابند تھے۔ باجماعت نماز کو اوّلیت و فوقیت دیتے۔ محلہ کی مجلس عاملہ کے بھی ممبر تھے۔دعاگو تھے۔ سفرو حضر میں نماز تہجد ضرور ادا کرتے۔ کئی بار محکمانہ سالانہ امتحانات میں خاکسار کو بھی اپنے ساتھ لے جایا کرتے اور قیام گاہ پر باجماعت نماز ادا کرتے۔ مطالعہ بڑا گہرا اور وسیع تھا۔ ذیلی تنظیموں کے امتحانات میں بڑے شوق ذوق سے شمولیت فرماتے۔ کئی بار پاکستان کی جملہ مجالس میں دوم، سوم بھی آئے۔ گوناگوں مصروفیات کے باوجود چھوٹے بڑے جماعتی کاموں کے لئے ضرور وقت نکال لیتے اور وقت کی پابندی کا خاص خیال رکھتے۔ جہاں کہیں بھی وقارعمل ہوتا اس میں بھی ضرور شرکت کرتے اور اختتام تک موجود رہتے۔ اَن تھک محنت کے عادی تھے۔ جب تک ہمت رہی صبح کی سیر پر بھی دوام رکھا۔
خلافت سے والہانہ عشق تھا۔ مقامِ خلافت کا ادراک تھا اور ہمیشہ دربار خلافت سے دعاؤں کے طالب رہتے۔ جب ایم ٹی اے جاری ہوا تو حُسن اتفاق کہ محکمہ تعلیم کی طرف سے کچھ بقایا کی رقم ہم دونوں کو ملی۔ آپ نے فوراً اپنی رقم ایم ٹی اے کی مد میں اد اکردی۔ ان کی تحریص سے خاکسار نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس طرح آپ نیکیوں کا نمونہ بھی قائم فرماتے۔
آپ کی محکمہ تعلیم میں بڑی واقفیت تھی۔ خاکسار کی ترقی میں مخالفین دس سال تک اَڑے رہے۔ ایک روز آپ مجھے لے کر فیصل آباد میں ٹیچرز یونین کے صدر کے پاس گئے تو وہ آپ سے نہایت تپاک سے ملے۔ القصہ آپ کی وجہ سے یونین نے بھی محکمہ تعلیم پر میرا حق دینے کے لیے دباؤ بڑھایا۔
جلسہ سالانہ ربوہ میں آپ کی ڈیوٹی اکثر مہمان نوازی کے شعبہ میں ہوتی۔ ہر کام بڑے نظم و ضبط سے کرتے۔ بڑے سلیقہ مند تھے۔ کھانا کھلانے کے دوران ہمہ وقت مہمانوں کی قیام گاہوں میں موجود رہ کر پوری نگرانی فرماتے۔ مہمانوں کو ذرا بھر تکلیف نہ ہونے دیتے۔ ہر ایک سے پیار اور محبت سے پیش آتے۔ بناوٹ اور تصنّع نام کو بھی نہ تھا۔
بڑی ہمت والے تھے۔ لمبا عرصہ شوگر کا عارضہ لاحق رہا جو بڑھتے بڑھتے انسولین تک آن پہنچا۔ کینسر کے موذی مرض کا بڑی ہمت اور حوصلے سے مقابلہ کیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں