مکرم ماسٹر بشیر احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍مارچ 2006ء میں محترم ماسٹر بشیر احمد صاحب آف چارکوٹ (راجوری) کا ذکر خیر کرتے ہوئے مکرم میر غلام احمد نسیم صاحب رقمطراز ہیں کہ جب کشمیر میں جموں کے راجہ نے علاقہ کو کشمیریوں سمیت اپنی جاگیر سمجھ رکھا تھا اور ہر قسم کے انسانی حقوق غصب کررکھے تھے، ایسے میں جن لوگوں نے عوام کی بہبود کے لئے کوئی بھی قدم اٹھایا، اُنہیں بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے ہی باہمت لوگوں میں محترم ماسٹر صاحب شامل ہیں جنہوں نے ضلع جموں کے موضع چارکوٹ میں گزشتہ صدی کی تیسری دہائی میں انجمن احمدیہ قادیان کی اخلاقی اور کسی قدر مالی مدد سے ایک مکتب قائم کیا جو آہستہ آہستہ مڈل سٹینڈرڈ تک جا پہنچا۔
خاکسار جب پرائمری تک تعلیم حاصل کرچکا تو مزید تعلیم کے لئے چارکوٹ کے سکول کے علاوہ کہیں اَور جانا ممکن نہیں تھا۔ محترم ماسٹر بشیر احمد صاحب وہاں کے ہیڈماسٹر تھے۔ جب اُن سے رابطہ کیا تو احمدی ہونے کے ناطے انہوں نے بڑی فراخدلی سے اپنے گھر میں رہائش کی اجازت دیدی۔ مَیں اڑہائی سال اُن کے ہاں مقیم رہا اور اُن کو ایک مہربان سرپرست کے طور پر پایا۔ سکول کے علاوہ بھی میرا ہر طرح خیال رکھتے۔ کھانا وقت پر کھلاتے اور نماز اپنے ہمراہ پڑھاتے۔ تعلیمی میدان میں اُن کی حیران کن خوبی یہ تھی کہ وہ اکیلے ہی ایک ایسے سکول کو بڑی خوبی سے جاری رکھے ہوئے تھے جو درجہ اوّل سے درجہ ہشتم تک تھا۔
تقسیم ہند کے بعد جب کشمیر میں جنگ جیسی صورتحال پیدا ہوگئی تو ماسٹر صاحب ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور کچھ عرصہ مہاجر کیمپوں میں رہنے کے بعد گرمولہ ورکاں ضلع شیخوپورہ میں رہائش اختیار کرلی۔ وہیں آپ کا انتقال بھی ہوا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں