مکرم مبشر احمد صاحب چدھڑشہید

تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے سابق طلباء کی برطانیہ میں قائم ایسوسی ایشن کے انٹرنیٹ گزٹ ماہنامہ ’’المنار‘‘ مئی 2011ء میں مکرم پرو فیسر محمد شریف خان صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے

پروفیسر محمد شریف خان صاحب

جس میں کالج کے تین شہید طلباء کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔ ان میں سے دو طلباء یعنی محترم محمد منیر خان شامی شہید کا تفصیلی ذکرخیر6؍اپریل 2007ء کے شمارہ کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں اور محترم میاں جمال احمد شہید کا ذکرخیر 23 فروری 2007ء کے شمارہ کے اسی کالم میں کیا جاچکا ہے۔ تیسرے شہید درج ذیل ہیں:
گکھڑ منڈی ضلع گو جرانوالہ کے چوہدری اما نت علی صا حب کے ہو نہار بیٹے مبشر احمد تعلیم الاسلام کا لج ربوہ میں ایف ایس سی کے طا لب علم تھے ۔عزیزم خوبصورت، صحتمند، ہنس مکھ نوجوان تھا۔ طبیعت میں ہلکا پھلکا مزاح تھا لیکن بزرگوں کے سا تھ ہمیشہ مؤدّب رہتا۔ مجلس اور جماعت کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا۔ اپنی لیاقت اور خوش خُلقی کے باعث کا لج میں ہردلعزیز تھا۔ موسمِ گرما کی چھٹیاں گزار نے گھر آ یا ہوا تھا۔ ایک دن بازار میں سے گزر رہا تھا کہ ایک اوباش قصائی نے چھری کے پے در پے وار کرکے شہید کردیا۔
ان دنوں حضرت صاحبزادہ مرزا نا صر احمدصاحبؒ پرنسپل تعلیم الاسلام کا لج ربوہ ، کراچی تشریف لے گئے ہوئے تھے۔ جب انہیں مکرم مبشراحمد صاحب کی شہادت کی اطلاع ملی تو آپؒ نے مکرم پروفیسر چو ہدری محمد علی صاحب کو آدھی رات کو فون کرکے دریافت فرمایا کہ اس خبر کی تفصیل بتائی جائے۔ آپ نے فرمایا: ’’مجھے نیند نہیں آرہی اور بے حدبے چینی ہے۔ کیا یہ مبشر احمد وہ تو نہیں جو ہروقت مسکراتا رہتا تھا؟‘‘۔ افسوس کہ یہ وہی مبشر احمد تھا جس کی وفات پر آپ اس طرح بے چین ہو گئے اور کرا چی سے فون کیا۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ مَیں شہید مرحوم کو بچپن سے جانتا تھا اور اتنا عر صہ گزر جانے کے بعد بھی آج جب عزیزم مبشر احمد کی یاد آتی ہے تو طبیعت پر ایک خا ص قسم کی افسرد گی چھا جا تی ہے اور بے اختیار دل سے دعا نکلتی ہے۔ ان جیسے جان نثا روں کے بارہ میں حضرت مولانا غلام رسو ل صاحب را جیکیؓ کا ایک فارسی شعر ہے جس کا ترجمہ یوں ہے:
اگرچہ محبت الٰہی سے سرشار ہوکر جان قر بان کرنے والوں کی روایات کو دنیا بھول چکی ہے ، مگر ہم نے قرونِ اولیٰ کی ان روایا ت کو از سرِ نو تا زہ کردیا ہے۔ حق و صداقت کے عاشق جہاں اپنی جانیں نثار کرتے رہے ہیں ، اُسی قربان گاہ تک رسائی تو ہماری زندگی کا نصب العین ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں