مکرم ناصر احمد صاحب سابق محاسب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16 مئی 2012ء کی ایک خبر کے مطابق دیرینہ خادم سلسلہ مکرم ناصر احمد صاحب ابن مکرم میاں چراغ دین صاحب سابق محاسب و افسر پراویڈنٹ فنڈ مورخہ 13 مئی 2012ء کو بعمر 74 سال طویل علالت کے بعد وفات پا گئے۔ آپ 2008 ء سے کمر کے مہرے میں تکلیف کی وجہ سے جسم کا نچلا حصہ مفلوج ہو جانے کے باعث صاحب فراش تھے۔ بوجہ موصی ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔
مرحوم کے خاندان کا تعلق سیکھواں ضلع گورداسپور انڈیا سے ہے۔ اگرچہ آپ کے دادا حضرت میاں الٰہی بخش صاحب سیکھوانیؓ کا ذکر جلسہ سالانہ 1892ء میں شاملین کی فہرست میں 204 نمبر پر ’’میاں الٰہیا چوکیدار سیکھواں ضلع گورداسپورہ‘‘ کے نام سے درج ہے۔ یہ فہرست حضرت مسیح موعودؑ کی تصنیف ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں شامل اشاعت ہے۔ تاہم مرحوم کے والد مکرم میاں چراغ دین صاحب نے 1908ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی توفیق پائی اور بعدازاں سیکھواں سے قادیان منتقل ہوگئے۔
مکرم ناصر احمد صاحب 9؍اگست 1938ء کو قادیان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم قادیان سے حاصل کی اور پھر تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ سے میٹرک پاس کیا۔ آپ نے BA تک تعلیم حاصل کی۔ آپ کو 16 جون 1956ء سے صدرانجمن احمدیہ ربوہ میں مختلف حیثیتوں سے کئی شعبوں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ابتدائی تقرری سے 1973ء تک دفتر خزانہ میں بطور کارکن کام کرتے رہے۔ پھر دفتر وصیت میں بطور اسسٹنٹ سیکرٹری مجلس کارپرداز کام کیا۔ 1990ء میں ان کا تقرر بطور نائب آڈیٹر ہوا اور پھر 1993ء سے 2008ء تک بطور محاسب و افسر پراویڈنٹ فنڈ خدمات بجالانے کی توفیق ملی۔ اس کے علاوہ لمبا عرصہ تک بطور ناظم تنقیح حسابات دفتر جلسہ سالانہ بھی خدمت بجالائے۔ گویا نصف صدی سے زائد عرصہ تک خدمات سرانجام دینے کی توفیق پائی۔ 2000ء میں مرحوم کو بطور نمائندہ صدر انجمن احمدیہ جلسہ سالانہ یُوکے اور جرمنی میں شمولیت کا بھی موقع ملا۔
مرحوم بہت سی خوبیوں اور عمدہ اوصاف کے مالک تھے۔ آپ بہت ہی منکسرالمزاج، ہنس مکھ طبیعت، خوش مزاج، وفاشعار اور بے لوث خدمات بجالانے والے تھے۔ بہت مہمان نواز اپنے ماتحتوں اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ بڑے پیار، محبت و شفقت اور ہمدردی کے ساتھ پیش آتے تھے۔ دوسروں کے کام آتے اور ان کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے۔ آپ صوم و صلوٰۃ کے پابند، تہجد گزار اور دعا گو شخص تھے۔ مالی قربانی میں ہمیشہ آگے رہتے۔ اپنی زندگی میں ہی اپنی جائیداد کی تشخیص کرواکر حصہ جائیداد ادا کر دیا تھا۔ آپ کی یادداشت اور حافظہ بہت اعلیٰ تھا۔ متعدّد بچوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھایا۔ خلافت کے ساتھ مرحوم کا بے پناہ محبت و عقیدت کا تعلق تھا۔ اسی طرح اپنے بیوی بچوں اور عزیز و اقارب کے ساتھ بہت پیار، محبت اور شفقت کا سلوک تھا۔
مرحوم کی شادی 1971ء میں مکرمہ صفیہ سبحان صاحبہ بنت مکرم منشی سبحان علی صاحب آف گورداسپور انڈیا کے ساتھ ہوئی جن کے بطن سے خداتعالیٰ نے آپ کو دو بیٹیوں سے نوازا۔