مکرم ناصر محمود خان ’شہیدلاہور‘
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 23؍ستمبر2024ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍جنوری2014ء میں مکرمہ س۔متعال صاحبہ اپنے بھائی مکرم ناصر محمود خان ’شہیدلاہور‘ کا ذکرخیر کرتی ہیں۔ اپنے بچپن کی یادوں کو بیان کرتے ہوئے وہ رقمطراز ہیں کہ مَیں اپنے بھائی سے پانچ سال چھوٹی ہونے کے باوجود بھائی کی بڑی بہن لگتی تھی۔ سارے کام مل جل کر کرتے۔ بچپن میں اگر کسی چھوٹے بہن بھائی کو والدین سے ڈانٹ یا مار پڑنی تو بڑے بھائی نے ہمیں بچانا۔ بہنوں سے اتنا پیار تھا کہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ بس یوں تھاکہ ہم تینوں چھوٹے بہن بھائیوں کے لئے ناصر پیار ہی پیار تھا۔
میرا پیارا بھائی انتہائی صاف اور نفیس عادات کا مالک تھا۔ جسمانی صفائی، کمرے کی صفائی، کتابوں کاپیوں کی صفائی، امی کے ساتھ گھر کی صفائی میں بھی مدد کرتا۔ ہم بہنوں کی کوکنگ میں اور پینٹنگ میں ہمیشہ مدد کرتا۔ جب بھی ہمیں ضرورت ہوتی تو بہترین مشورے دیتا۔
جب امی Job کرتی تھیں تو ہم بہن بھائیوں نے پہلے گھر آکر بھائی کے ساتھ آلو کے کباب چاول بنانے، سلاد اور چٹنی وغیرہ بنانی اور پھر امی کے انتظار میں میز پر کھانا رکھ کر بیٹھے رہنا۔ اکثر میز پر سر رکھے رکھے سو جانا ۔ بھائی ہمارے ہوم ورک میں مدد کرتا۔ کوئی ڈایا گرام بنانی ہوتی تو بھائی ہی بنا کر دیتا۔ بلکہ ہماری کاپیوں کتابوں پر کور چڑھانا بھی اس کا ہی کام تھا۔
بھائی میں خدمت دین کا بہت جذبہ تھا۔ قادیان جانے والوں کے لئے بھائی خدام کے ساتھ اور مَیں لجنہ کے ساتھ ڈیوٹی دیتے۔ دسمبر کی صبح سردی میں سٹیشن سے دارالذکر مہمانوں کو پہنچانا اور وہاں سے بارڈر تک ہم مختلف ڈیوٹیاں دیتے۔ جب بھائی قادیان گیا تو صرف ہم تینوں کے لیے ہی نہیں بلکہ حلقہ کی کئی لجنہ و ناصرات کے لیے بھی تحفے لایا۔ عید پر جب ہم دونو ں بہنوں نے اس کے لائے ہوئے قمیص اور دوپٹے پہنے تو اکثر نے بہت پسند کیے اور یہ معلوم ہونے پر کہ بھائی لایا ہےتو یہی کہا جاتا کہ ناصر کی چوائس زبردست ہے۔
بھائی نے اپنے رشتوں کو بہت اچھا نبھایا۔ ہم گیارہ سال اپنی پھوپھو اور اُن کے بچوں کے ساتھ ایک گھر میں رہے۔ بھائی نے ہی ہم کو اچھی عادات کاعادی بنایا کہ کسی کی بات اس کی غیرموجودگی میں نہیں کرنی۔ بڑوں کا ادب کرنا ہے۔ نماز اور قرآن کی پابندی کرنی ہے۔ بھائی نے دادا، دادی کی بہت خدمت کی۔ بھائی ان کی ٹانگوں کی بلا ناغہ مالش کیا کرتا۔ وقت بےوقت چائے بنا کر دیتا۔ اُن کی آخری خدمات بھی بھائی نے اپنا فرض سمجھ کر ادا کیں۔ دادا جان کو آخری غسل دیا۔ دادی جان کے لئے قبر بنانا اور غسل کا انتظام وغیرہ کیے۔
شادی کے بعد میرا پیارا بھائی میرا بہت خیال رکھتا۔ کبھی خالی ہاتھ میرے گھر نہ آتا۔ اکثر سموسے یا جلیبیاں لاتا اور کہتا چائے بناؤ مل کر کھائیں۔ میری ساس امی کی بہت عزت کرتا بلکہ ہمیشہ جھک کر ملتا۔ میرے بچوں سے اتنا پیار کہ اگر کبھی میری بچی بیمار ہوئی تو سب سے پہلے بھابھی اور ناصر بھائی پہنچتے اور ہر طرح خیال رکھتے۔
بھائی بہت ہی سادہ مزاج مگر نفیس لباس اور نفیس عادات کا مالک تھا۔ کبھی فضول خرچی یا اپنے نفس پر بےجا خرچ نہ کرتا۔ تمام بچوں کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتا۔ زندگی کے ہر سانس میں بھائی کی ڈھیروں یادیں ہیں جنہیں ہم بھلا نہیں سکتے۔ وہ خاندان بھر کا لاڈلا اور پیارا بچہ تھا۔ سب کا ہمدرد اور سب سے پیار لینے والا ۔
وہ لمحہ قیامت سے کم نہ تھا جب تین گھنٹے بھائی کے نہ ملنے کی خبر کے بعد اُس کی شہادت کی خبر سنی۔ ایسے لگتا تھا مَیں پاگل ہو جاؤں گی۔ میری پیاری بھابھی بےہوش اور بچے سہمے سہمے خوفزدہ۔ بوڑھے والدین کی کمریں ٹوٹ گئیں۔ مگر پھر صبر اور یہ مقامِ شہادت جو عظیم انعام ہے، ہم سب کی پہچان بن گیا۔ یہ تسکین کا باعث ہے کہ میرا بھائی زندہ ہے۔ شہید مرتے نہیں۔ میرے بھائی نے تو آگے بڑھ کر کئی گھروں کو برباد ہونے سے بچالیا۔ ہینڈ گرینیڈ اپنے ہاتھ سے روک کر اپنے پیچھے والوں کے لیے ڈھال بن گیا۔ بہادری اور شجاعت کی مثال قائم کرگیا۔ پھر پیارے آقا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے پیار بھرے فون اور صبر کی تلقین نے ہمیں بےحد حوصلہ دیا۔
خدا کرے ہماری نسلیں بھی احمدیت کے لئے سینہ سپر اور خلافت جیسی نعمت سے وابستہ رہیں۔ ؎
آنکھ سے دُور سہی دل سے کہاں جائے گا
جانے والے تُو ہمیں یاد بہت آئے گا
………٭………٭………٭………