مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام صاحب کے بارہ میں محترمہ زاہدہ حنا صاحبہ کی تحریر

جماعت احمدیہ امریکہ کے ماہنامہ ’’النور ‘‘ جنوری 2007ء میں ’’مغرب تیرا شکریہ‘‘ کے عنوان سے محترمہ زاہدہ حنا صاحبہ کا کالم شامل اشاعت ہے جو اخبار ’’ایکسپریس‘‘ کی Online اشاعت سے منقول ہے۔
وہ بیان کرتی ہیں کہ دس برس پہلے کی بات ہے، مارچ کے مہینے کی ایک شام تھی جب کراچی میں اس شخص کی 70 ویں سالگرہ خاموشی سے منائی گئی جو اپنی زمین اور اپنے آسمان کے ہجر میں مبتلا تھا۔ دنیا کے اس ذی وقار شہری، مایہ ناز سائنس داں اور 2درجن سے زیادہ اعلیٰ ترین بین الاقوامی اعزازات سے نوازے جانے والے شخص کی یاد گیری کی محفل میں موجود ہونا میرے لئے اعزاز کی بات تھی دوسروں کی طرح میں نے بھی اسے حرفوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔
اور پھر21 نومبر1996ء کو اس شخص کے ابدی نیند سونے کی خبر آگئی۔ اس کی زندگی کا بیشتر حصہ پاکستان سے باہر گزرا۔ وہ بار بار یہاں آیا لیکن ہر مرتبہ اسے واپس جانا پڑا۔ دنیا اس کی راہوں میں آنکھیں بچھاتی تھی لیکن ہم اس سے نگاہیں چراتے تھے۔ہمیں تو نظری طبیعات میں اس کے مجوزہ اعلیٰ تحقیقی ادارے کی بھی ضرورت نہیں تھی جو آخر کار وہ شخص اٹلی کے شہر ٹرسٹے میں قائم کرنے پر مجبور ہوا۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اس کی کوششوں سے قائم ہوا۔ دنیا نے اسے 274 سے زیادہ ایوارڈ، اعزازات اور انعامات دئیے، ان کے ساتھ ملنے والی رقوم کا تخمینہ کروڑوں ڈالر تک پہنچتا ہے۔ اس شخص نے یہ رقم اپنی ذات کی بجائے پاکستان اور تیسری دنیا کے ذہین اور ضرورت مند طلباء کی اعلیٰ تعلیم اور تحقیق پر خرچ کی۔ یہ اس شخص کا قصہ ہے جو شہنشاہِ ایران کو دی جانے والی ضیافت میں اُدھڑے ہوئے جوتے پہن کر چلا گیا تھا اس لئے کہ اس کے خیال میں نئے جوتے خریدنا فضول خرچی تھی۔ جھنگ کی مٹی کے مقدر میں عشق بلا خیز اور ابدی جدائی دونوں لکھ دئیے گئے تھے، تب ہی جھنگ کی ہیر ہو یا اس کے صدیوں بعد پیدا ہونے والا عبد السلام دونوں ہی بیمارِ عشق رہے۔
وہ اپنی دھرتی کو یاد کرتے ہوئے ہچکیوں سے روتے تھے لیکن ان کی آہ بے ثمر تھی، ان کا نالہ نارسا تھا۔ … ان کے لوحِ مزار کو کیوں اور کس کے حکم سے کھرچا گیا میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتی لیکن میرا خیال ہے کہ اس سانحے پر ان کی رُوح نے بھی غالب کی طرح غرقِ دریا ہونے کی آرزو کی ہوگی۔
پاکستان اور عالم اسلام کے واحد نوبل انعام یافتہ کے ساتھ ہم نے وہی کچھ کیا جو سینکڑوں برس سے اپنے عالموں، دانشوروں اور فلسفیوں پر ہم نے کفر والحاد کے فتوے لگائے تھے، جن پر زیست حرام کر دی تھی، آج ہم ان ہی کے ناموں کے آگے رحمۃ اللہ علیہ اور ان میں سے بعض کے نام سے پہلے ’’امام‘‘ لکھتے ہیں۔ ہم بھول چکے ہیں کہ ابن حزم کا مدرسہ اور کتب خانہ ہم نے جلایا، اشبیلیہ میں اس کی تحریریں سربازار نذرِ آتش کی گئیں، کبھی اسے جلاوطن کیا، کبھی قید و بند کی صعوبتوں سے گزارا، آج وہ ہمارے لئے ایک محترم نام ہے۔ ہم کسی کو یہ نہیں بتاتے کہ ہم نے ابن تیمیہ کی کتابیں نذرِ آتش کیں، اسے قید کیا اور قید کے دوران اس سے تصنیف اور تالیف کی آزادی سلب کر لی۔ آج ہم اسے ’’امام‘‘ لکھتے نہیں تھکتے۔ ہم نے تو ابن تیمیہ کے شاگرد ابن القیم کو بھی معاف نہیں کیا، اسے بندی خانے میں رکھا، اونٹ پر بٹھا کر شہر بھر میں یوں پھرایا جیسے وہ کوئی مجرم ہو، اس کی کتابیں جلائیں۔ مسلم دنیا کا آخری نادر روزگار اور عظیم ہیٔت داں، عالم، فلسفی، ابن رُشد جو اپنے خیالات و افکار کے سبب ذلیل و رُسوا ہوا، جسے مسجد قرطبہ کی سیڑھیوں پر نمازیوں کے جوتے صاف کرنے کی سزا دی گئی، جسے جلاوطن کیا گیا، جس کی کتابیں قرطبہ کے چوک پر الاؤ میں جھونکی گئیں آج اسی ابن رُشد کے حوالے سے ہم یورپ میں نشأۃ ثانیہ کا سہرا اَپنے سر باندھتے ہیں اور فخر سے یہ کہتے ہیں کہ راجر بیکن نے 1230ء میں ابن رُشد کی کتابوں کے لاطینی ترجمے کو یورپ کی علمی تاریخ کا ایک عظیم واقعہ قرار دیا تھا۔
عالم اسلام میں علم پروری اور عقل دوستی کا زوال ابن الہیشم اور البیرونی سے پہلے ہی شروع ہوچکا تھا اور یہ عمل بارہویں صدی کے آخر پر برسوں میں ابن رُشد کی ذلّت آمیز جلاوطنی کے ساتھ مکمل ہوا۔ اس عظیم سانحے کو 8 سو برس گزر چکے لیکن … ہمارے رویے آج بھی دسویں، گیارہویں اور بارہویں صدی عیسوی سے آگے نہیں بڑھے۔ ہم آج بھی اتنے ہی بدبخت ہیں کہ ہم نے اپنے ایک نابغۂ روزگار کے لئے اس کے اپنے ملک میں عرصۂ حیات اس پر تنگ کر دیا۔ دیارِ غیر میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے ڈاکٹر عبد السلام سے مغرب و مشرق کی ذہانتیں استفادہ کرتی تھیں۔ لیکن اسی نوبل انعام یافتہ سائنسدان نے جب اپنے ملک کا رُخ کیا تو بر سرِ اقتدار خواتین وحضرات نے اِسے ملاقات کا وقت نہیں دیا۔ معمولی سرکاری اہل کاروں نے سائنس کی ترقی کے لئے اس کی بیش قیمت تجاویز اور تعاون کے معاملات کو سرد خانے میں ڈال دیا۔ کراچی یونیورسٹی نے جب اسے اپنے یہاں مدعو کیا تو انتہاپسندوں نے اس کی آمد کو کفر و اسلام کی جنگ میں تبدیل کر دیا۔ آج ہم تباہی وبربادی کی جس دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں اس کا بنیادی سبب ہماری علم دشمنی، جہل دوستی اور اپنے علماء فضلا کی توہین و تذلیل ہے۔ ہم اپنی ذہانتوں کو دیس نکالا دیتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ ہم تفکر اور تدبر کے سوتوں پر پہرے بٹھا دیتے ہیں۔ ہم اپنی دانش گاہوں میں ذہانتوں کو پنپنے نہیں دیتے اور انہیں کبھی ملحد، کبھی کافر اور کبھی بے راہرو قرار دے کر مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ دیارِ غیر کا رُخ کریں اور ان کی ذہانتیں یورپ و امریکہ میں گل و گلزار کھلائیں۔
ہم جس تیزی سے زوال اور ذلت آمیز غلامی کی طرف جارہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما اور ہمارے دانشور منافقت میں مبتلا ہیں۔ کسی بھی قوم کی رہنمائی اس کے سیاستدان، مدبر، مفکر اور دانشور کرتے ہیں اور جب یہی طبقہ مصلحت و منافقت کا شکار ہوجائے تو قوم کا وہی حشر ہوتا ہے جو ہمارا ہے۔ آج ہم میں سے کتنے ہیں جو اٹھ کر بآواز بلند یہ کہہ سکیں کہ یہ وہ پاکستان نہیں ہے جس کا وعدہ برصغیر کے مسلمانوں سے کیا گیا تھا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں کے عوام ہر مرتبہ تنگ نظر رہنماؤں کو مسترد کرتے ہیں اور جمہوریت پسندی اور روشن خیالی کے دعویدار سیاستدانوں کو حق حکمرانی سونپتے ہیں لیکن ایسی ہر جماعت اقتدار میں آنے کے بعد منافقت اور سیاسی مصلحت پسندی سے کام لیتے ہوئے سول اور فوجی نوکر شاہی، جاگیر دار اشرافیہ اور کٹھ ملاّؤں کے سامنے ہتھیار ڈال دیتی ہے۔
ڈاکٹر عبد السلام اس صدی میں نظری طبیعات کے شعبے کی عظیم ذہانتوں میں سے ایک تھے۔ جس دھرتی سے ان کا خمیر اٹھا اسے ان پر ناز کرنا چاہئے تھا لیکن یہ ان کی نہیں ہماری سیہ بختی ہے کہ ہم نے انہیں جلاوطنی اور بے توقیری کے عذاب میں ڈالا۔ مغرب سے متعدد معاملات پر اختلاف رکھنے کے باوجود ہمیں اس کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ ہمارے جلاوطنوں کو پناہ وہیں ملتی ہے۔ اے مغرب تیرا شکریہ!!

اپنا تبصرہ بھیجیں