مکرم چودھری رحمت خان صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍مئی 2010ء میں مکرم خواجہ منظور صادق صاحب کے قلم سے محترم چوہدری رحمت خان صاحب (سابق امام مسجد فضل لندن) کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔ مرحوم کا ذکرخیر قبل ازیں 15؍مئی 1998ء اور 8؍اپریل 2011ء کے شماروں کے اسی کالم میں شامل اشاعت کیا جاچکا ہے۔

مکرم چودھری رحمت خان صاحب اپنے بیٹے مسعود کے ساتھ

مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ خاکسار کو بہت قریب سے محترم چودھری صاحب دیکھنے اور ان کے اوصاف کریمانہ سے فیضیاب ہونے کا موقع اس وقت ملا جب آپ احمدیہ ہوسٹل لاہور کے سپرنٹنڈنٹ تھے اور خاکسار ایک طالب علم کی حیثیت سے ہوسٹل کا ایک مکین تھا۔ 1965-66ء میں لاہور میں جب احمدیہ ہوسٹل کا دوبارہ اجراء ہوا تو مکرم چوہدری رحمت خان صاحب کو جو بیت فضل لندن کے امام کی حیثیت سے چند سال خدمات بجا لانے کے بعد وطن واپس لوٹے تھے، ہوسٹل کا پہلا سپرنٹنڈنٹ مقرر کیا گیا۔ یہ ہوسٹل پہلے گلبرگ کی ایک کوٹھی میں قائم ہوا۔ جہاں سے کچھ عرصہ بعد 108-C ماڈل ٹاؤن میں شفٹ ہوا۔ اس وقت ہوسٹل میں قیام پذیر طلبہ کی تعداد بیس پچیس سے زیادہ نہ تھی۔
خاکسار کو ہوسٹل میں اپنے دو سالہ قیام کے دوران مختلف خدمات بجالاتا رہا اور اپنی ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران ہی مجھے مکرم چوہدری صاحب کی فرشتہ سیرت ذات کو قریب سے جانچنے کا موقع ملا۔ آپ انتہائی شریف النفس، بہت کم گو مگر دُوربین نگاہ رکھنے والے، نماز پنجوقتہ کے سختی سے پابند اور باقاعدگی سے تہجد گزار، دعا گو، احمدیت کی ایک عملی تصویر اور گفتار کی بجائے کردار کے غازی تھے۔ ہوسٹل کے طلبہ کے لئے جن میں بڑے بڑے کڑیل اور اڑیل نوجوان بھی شامل تھے آپ سراپا محبت اور پیار کا مجسمہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ سب ہی آپ کا دل سے احترام کرتے اور کبھی کوئی بدمزگی یا کوئی ناخوشگوار واقعہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
آپ کے انتہائی صابر و شاکر اور راضی برضا رہنے والے وجود تھے۔اس کا ثبوت ہمیں اس وقت ملا جب انہیں ان کے ایک انتہائی ہونہار اور لاڈلے نوجوان بیٹے کی لندن میں المناک وفات کی اطلاع ملی۔ ان کا یہ بیٹا مسعود اپنی پی ایچ ڈی کے سلسلہ میں لندن میں تھا اور مسجد فضل لندن کے احاطہ میں رہائش پذیر تھا۔ چھ ماہ بعد فارغ التحصیل ہو کر اس نے واپس آنا تھا اور آتے ہی اس کی شادی کا پروگرام طے تھا۔ مکرم چوہدری صاحب اکثر اس کا بڑے پیار اور فخر سے ذکر کرتے۔ ایک بار باتوں باتوں میں خاکسار نے یہ پوچھ ہی لیا کہ چوہدری صاحب آپ کے چارپانچ بیٹے اَور بھی ہیں لیکن آپ ان کا کبھی ذکر نہیں کرتے جب دیکھو مسعود کا ذکر کرتے اور اس کی تعریفیں کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا کہ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ میرے بچوں میں سب سے چھوٹا ہے اس لئے فطری طور پرمجھے بہت عزیز ہے دوسرے یہ کہ یہ بڑا قابل، ذہین اور ہونہار ہے تیسرے یہ کہ اس کی آواز بہت سریلی اور پیاری ہے اور مسجد فضل لندن میں اکثر اذان دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہاں بھی بہت مقبول اور ہردلعزیز ہے بالخصوص حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب شاید اسی وجہ سے اس سے بہت پیار کرتے ہیں۔ یہ وہ ’’پیارا مسعود‘‘ تھا جو ایک رات شدید بارش کے دوران مسجد کا ایک بند Drain صاف کرتے ہوئے بجلی کا کرنٹ لگنے سے اللہ کو پیارا ہوگیا۔
اگلے روز ہوسٹل میں چوہدری صاحب کے نام کوئی آدھی رات کے قریب ایک ٹیلی گرام آیاجس میں یہ افسوسناک اطلاع دی گئی تھی۔ مکرم چوہدری صاحب اس وقت اپنے بیڈ روم میں جا کر سو چکے تھے۔ میںنے چوہدری صاحب کو جگا کر یہ دلخراش خبر سنانا مناسب نہ سمجھا۔ البتہ ہوسٹل کے تمام لڑکوں کے مشورہ سے فیصلہ یہ ہوا کہ صبح سب چھٹی کریں گے تا کہ ہم سب چوہدری صاحب کے اس غم میں ان کے ساتھ شامل ہوں۔ ہمارے سارے ہوسٹل میں صرف ایک ٹیلی فون تھا جو محترم چوہدری صاحب کے کمرے میں تھا اور اس وقت بند تھا۔ چنانچہ ہمارے لئے چوہدری صاحب کے عزیزوں رشتہ داروں کو یہ المناک اطلاع دینے کا مسئلہ تھا۔ اس کے لئے ہم نے ایک قریبی غیر از جماعت ہمسایہ کو تکلیف دی اور ان کے ٹیلی فون سے راتوں رات ربوہ، گجرات دیگر شہروں میں جہاں تک ہمیں ان کے اقرباء کا علم تھا ایک حکمت عملی اختیار کرکے روک دیا کہ چوہدری صاحب کو کسی اور ذریعہ سے ’’پیارے مسعود‘‘ کی المناک جدائی کی خبر اچانک نہ مل جائے کیونکہ خدشہ تھا کہ یہ سانحہ ان کے لئے ناقابل برداشت ہو گا۔ صبح ہوئی تو ہم نے ہوسٹل کے قریب ہی واقع ایک احمدی بزرگ کو جو عموماً فجر اور مغرب کی نماز پڑھنے ہوسٹل میں تشریف لاتے تھے فجر کی نماز کے بعد ٹیلی گرام سے ملنے والی افسوسناک خبر سنائی اور ان سے یہ درخواست کی کہ وہ مکرم چوہدری صاحب کو مناسب رنگ میں اس سانحہ کی اطلاع دیں۔ مگر انہیں اس کی ہمت نہ پڑی اور معذرت کا اظہار کر دیا۔ اب بادل نخواستہ یہ ناخوشگوار فرض مجھے ادا کرنا تھا۔ چنانچہ میں اپنے چند دوستوں کو ساتھ لے کر صبح دن چڑھنے کے بعد چوہدری صاحب کے بیڈ روم میں گیا اور اس دوران ہم نے ہوسٹل کے باورچی کو چوہدری صاحب کے لئے ناشتہ بھجوانے کا کہہ رکھا تھا۔ چوہدری صاحب عموماً یونیورسٹی سٹوڈنٹس کی فراغت کے بعد سب سے آخر میں ناشتہ کرتے تھے مگر آج ہمارے پروگرام میں سب سے پہلے انہیں ناشتہ کرانا شامل تھا۔ چنانچہ تھوڑی دیر بعد ناشتہ آ گیا میں نے اپنی دانست میں باتوں باتوں میں اور اشاروں کنایوں میں راضی برضارہنے اور صبر کا مضمون بیان کیا تو چوہدری صاحب کا ماتھا ٹھنکا اور انہیں شک گزرا کہ ’’دال میں کچھ کالا‘‘ ہے چنانچہ فرمایا کہ منظو ر! آج آپ نے صبح صبح یہ باتیں کیوں شروع کی ہیں اور یہ سب لڑکے بھی آج میں یہاں ہی دیکھ رہا ہوں۔ یونیورسٹی کیوں نہیں گئے۔ میرا ناشتہ بھی آ گیا ہے یہ کیا ہے؟ اس پر خاکسار نے لرزتے ہاتھوں وہ ٹیلی گرام انہیں دیا جس میں ان کے ’’لاڈلے مسعود‘‘ کی ہمیشہ کے لئے جدائی کی دل ہلا دینے والی خبر تھی۔ آپ نے ٹیلی گرام پڑھا اور

اِنَّالِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن

کہتے ہوئے پیچھے گاؤ تکیہ پر ٹیک لگائی اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد گویا ہوئے کہ آپ نے تو مجھے ذہنی طور پر یہ المناک خبر سننے کے لئے تیار کرلیا اور میں خداتعالیٰ فضل و کرم سے صبر بھی کر لوں گا لیکن اس کی والدہ کا کیا بنے گا جو صبح دوپہر شام، ناشتے اور ہر کھانے پر مسعود کی تصویر سے باتیں کرتے ہوئے اسے کھانے میں شامل کرتی تھی، وہ شایدیہ صدمہ برداشت نہ کر سکے۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر راضی ہونے اور صبر کا یہ عجیب منظر تھا جو ہم نے دیکھا۔ نہ کوئی جزع فزع نہ کوئی گلہ شکوہ، نہ کوئی آہ و زاری۔ یہ سب کچھ ہمارے لئے ناقابل یقین تھا۔ اس دوران باہر سے ان کے رشتہ داروں کے فون آنا شروع ہوئے تو چوہدری صاحب نے سب کو اصل حقیقت سنائی۔ آپ نے اس صدمہ جانکاہ کو ضعیف العمری اور پیرانہ سالی میں جس صبر و استقلال اور جوانمردی سے برداشت کیا وہ منظر آج تک میرے دل و دماغ پر نقش ہے۔

مکرم چوہدری صاحب بے شمار خوبیوں اور صفات حسنہ کے حامل تھے۔ آپ ہم احمدی نوجوانوں کے بہترین مربی اور شفیق باپ کی طرح تھے۔ کبھی سختی نہ کرتے بلکہ بڑے پیار اور دلنشیں انداز میں سمجھاتے۔ ہم میں سے کسی کی کوئی غلطی بھی ہوتی تو اولاً نظر انداز کرتے اور اگر سرزنش کرنا ہوتی تو اس میں بھی شفقت، پیار اور تربیت کا انداز نمایاں ہوتا۔ اس کا صرف ایک واقعہ درج کرتا ہوں کہ آپ ہر ماہ کے اختتام پر گجرات اپنے گھر جاتے تو ذاتی استعمال کے لئے دیسی گھی اور بادام وغیرہ لاتے۔ ایک مرتبہ ہمارے ایک ساتھی کو اس کی بھنک پڑی اور کسی نہ کسی طرح آپ کے مقفل کمرہ سے اُس نے بادام نکالنا شروع کر دئیے۔ کچھ عرصہ تو چوہدری صاحب خاموش رہے اور اشارتاً بھی کسی سے اس ’چوری‘ کا ذکر نہ کیا مگر ایک روز جبکہ ہم چند دوست ان کے ساتھ باتوں میں مصروف تھے اور ہمارے ’’چور دوست‘‘ بھی موجود تھے، آپ نے اس حرکت کا ذکر کیا تو اس پر ’چور‘ کے چہرہ پر مسکراہٹ آئی۔ چوہدری صاحب نے ہنستے ہوئے اُسے فرمایا کہ یہ تمہارا کام ہی لگتا ہے۔ وہ کہنے لگا ’’چوہدری صاحب پتر بھی تے تہاڈے ای آں تہا ڈا مال نہ کھائیے تو کدا کھائیے‘‘ (کہ بیٹے بھی توہم آپ کے ہی، آپ کا مال نہ کھائیں تو کس کا کھائیں)۔ یہ سن کرچوہدری صاحب نے پھر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ’’مانگ کر کیوں نہیں لیتے چوری کیوں کرتے ہو؟‘‘۔
چوہدری صاحب کی ایک اور نمایاں خوبی اُن کی شرافت و متانت تھی۔ کوئی فضول بات نہ کرتے، ہم سب کی احسن رنگ میں نگرانی فرماتے مگر اعتماد کرتے، بچوں کی طرح ہماری دیکھ بھال ہوتی۔ خاموش طبع اور ملنسار تھے ہمیشہ پگڑی اور اچکن پہنتے اور صاف ستھرا لباس زیب تن ہوتا۔ وضعدار اور بارعب شخصیت کے مالک تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں