مکرم چودھری عبدالرحیم صاحب

محترم چودھری عبدالرحیم صاحب کو یہ سعادت حاصل تھی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اُس گھڑی کی مرمت کی سعادت آپ کو حاصل ہوئی جسے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے جلسہ سالانہ برطانیہ 1999ء کے اپنے اختتامی خطاب میں حاضرین کو دکھاتے ہوئے وہ روایت سنائی تھی کہ گھڑی ٹھیک کرنے والے کو خواب میں پہلے ہی یہ گھڑی دکھاکر بتادیا گیا تھا کہ یہ نبی کریمﷺ کی گھڑی ہے۔ چنانچہ جب یہ گھڑی ایک احمدی دوست حضرت عبدالعزیز مغل صاحبؓ نے محترم چودھری صاحب کو ٹھیک کرنے کے لئے دی تو یہ بات اُن کے لئے تقویت ایمان کا باعث بن گئی۔
ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا اپریل 2003ء میں محترم چودھری عبدالرحیم صاحب کا تفصیلی ذکرخیر آپ کے صاحبزادے مکرم عبداللطیف چودھری صاحب نے کیا ہے۔
محترم چودھری عبدالرحیم صاحب ہیڈڈرافٹس مین (دفتر چیف انجینئر لاہور) خود بیان کرتے ہیں کہ 1912ء یا 1913ء میں جب مَیں امرتسر میں پڑھا کرتا تھا تو گرمیوں کی چھٹیوں میں بلّوکی چلا جاتا تھا جہاں میرے بڑے بھائی ملازم تھے۔ وہ ایک پیر صاحب کے مرید تھے جن کی یاد میں ایک رسالہ صوفی جاری تھا جس میں اولیاء اللہ کے حالات درج ہوا کرتے تھے۔ یہ رسالہ مَیں نے بھی اپنے نام جاری کروالیا۔ ایک بار مجھے خیال آیا کہ مَیں اُس دَور میں کیوں پیدا نہیں ہوا جب اولیاء اللہ آتے تھے۔ یہ خیال بڑھنے لگا اور کچھ عرصہ بعد جنون تک پہنچ گیا۔ ایک رات ایک کتاب میں پڑھا کہ آنحضرتﷺ کا وجود اگرچہ ہم میں نہیں لیکن بطور نبی وہ زندہ ہیں اور اگر آج بھی امّت میں کوئی نقص واقع ہوجائے تو آپؐ کی قوت قدسیہ اسے درست کردیتی ہے۔ مجھے خیال آیا کہ شاید حضورؐ میری حالت بھی درست فرمادیں لیکن پھر سوچا کہ مَیں بھلا کس شمار میں ہوں۔ اس پر مَیں نے رونا شروع کردیا اور اسی حالت میں سوگیا تو خواب میں دیکھا کہ آنحضرتﷺ کا انتظار ہورہا ہے، آپؐ تشریف لائے تو ہم سب نے آپؐ کی اقتداء میں نماز ادا کی اور پھر آپؐ نے خطبہ ارشاد فرمایا جو یاد نہیں رہا لیکن خطبہ کے دوران میری طرف دیکھ کر فرمایا: عبدالرحیم نماز پڑھا کرو۔ پھر آنکھ کھل گئی تو صبح کی نماز کا وقت تھا۔ مَیں نے مسجد جاکر نماز پڑھی۔ اس سے پہلے میری نماز کی طرف رغبت نہ تھی لیکن اس کے بعد بالالتزام پڑھنے لگا۔ پھر مَیں نے محسوس کیا کہ اللہ تعالیٰ میری اضطراب میں کی گئی دعا قبول فرمالیتا ہے تو مجھے از حد خوشی ہوئی۔
1916ء میں خواب دیکھا کہ کسی نے مجھے جیبی گھڑی مرمّت کے لئے دی ہے۔ یہ کام مَیں نے شوقیہ سیکھا ہوا تھا۔ جب مَیں نے گھڑی کو کھول کر مشین دیکھی تو سخت متعجب ہوا کہ اس میں دو Main Spring تھے جبکہ عموماً گھڑیوں میں ایک ہوتا ہے۔ اُس شخص نے بتایا کہ یہ آنحضرتﷺ کی گھڑی ہے۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔
ورکشاپ میں میرے ساتھ ایک احمدی مولوی عبدالرشید صاحب رہتے تھے۔ میری اُن سے محبت ہوگئی لیکن احمدیت سے خاندانی نفرت کی بنیاد پر احمدیت کے بارہ میں کوئی کلمہ سننا گوارا نہ تھا اور اسے تضیع اوقات خیال کرتا تھا۔ 1918ء میں میری تبدیلی اُن کے ماتحت ہوگئی لیکن اُن کی محبت کے باوجود میری نفرت وہی تھی۔ ایک روز وہ خوش الحانی سے نظم پڑھ رہے تھے: ’’اِک نشاں ہے آنے والا آج سے کچھ دن کے بعد‘‘۔ اس نظم نے میرے ذرّہ ذرّہ کو ہلا دیا اور مَیں نے بے تاب ہوکر پوچھا کہ یہ کس کی نظم ہے۔ اُن کے بتانے پر کہ حضرت مسیح موعودؑ کی ہے، مجھے یقین نہ آیا اور مَیں نے کتاب دیکھنے کی خواہش کی۔ براہین احمدیہ کا حصہ پنجم پہلی کتاب تھی جو مَیں نے پڑھی تو سارا تعصب جاتا رہا اور پھر مَیں نے شوق سے سلسلہ کا لٹریچر پڑھنا شروع کردیا۔
جب مجھے یقین ہوگیا کہ حضرت مرزا صاحب سچے ہیں تو استخارہ کیا۔ تو خواب میں حضرت مسیح موعودؑ نے خود تشریف لاکر اپنی صداقت کی خبر دی۔ جب مَیں نے اپنے والد صاحب اور دیگر احباب کو بتایا تو وہ مجھے مولوی سلام بابا صاحب امرتسری کے پاس لے گئے۔ انہوں نے کہا کہ فقیر ان جھگڑوں میں نہیں پڑتا اور مولوی خیر شاہ صاحب کا پتہ دیدیا۔ اُن کے پاس گئے تو انہوں نے حضورؑ کے لئے سخت الفاظ استعمال کئے اور ایک نیا استخارہ بتایا۔ اُس کے مطابق استخارہ کیا تو بڑا واضح خواب آیا۔ جب مولوی خیر شاہ صاحب کو یہ خواب سنایا تو انہوں نے کہا کہ جب اللہ ہی تمہیں گمراہی کے گڑھے میں گرانا چاہتا ہے تو مَیں کیا کرسکتا ہوں۔
دوسری طرف مجھ پر حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت آشکار ہوچکی تھی لیکن حضرت مصلح موعودؓ کی بیعت کی طرف رغبت نہیں ہوتی تھی۔ چند دن بعد ایک اَور خواب دیکھا جس میں حضرت مصلح موعودؓ کے حلیہ میں آنحضورﷺ سے ملاقات ہوئی۔ مَیں نے حضرت مصلح موعودؓ کا ذکر کئے بغیر یہ خواب مولوی سلام بابا صاحب سے بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ جن کے حلیہ میں آنحضورﷺ کو دیکھا ہے اُنہی کے دامن سے وابستگی آپ کو آنحضورﷺ اور اللہ تعالیٰ تک پہنچا سکتی ہے۔ مَیں نے کہا اگر علماء مخالف ہوں تو پھر بھی اُن کی بیعت کرلوں۔ کہا کہ خواہ سارا جہان مخالف ہوجائے پھر بھی اُن کی بیعت فرض ہے۔
کچھ دن بعد پھر ایک خواب دیکھا جس میں احساس تھا میری دنیا کی محبت آنحضورﷺ کی ناراضی کا باعث ہورہی ہے۔ چنانچہ مَیں نے فروری 1921ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے دست مبارک پر بیعت کرلی۔ اس کے بعد کئی فتنے اُٹھے لیکن حضورؓ کی نسبت میرے دل میں ذرّہ بھر شک پیدا نہیں ہوا بلکہ ہر دفعہ ایمان میں ترقی ہوئی۔ 1938ء میں مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ بہت سے انبیاء جن میں سے بعض کو مَیں جانتا تھا حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کا استقبال کر رہے ہیں۔ پھر خواب میں مجھے بتایا گیا کہ یہ خلیفہ ثالث ہوں گے۔
1922ء کے آغاز میں ایک تقریب پر مَیں لاہور گیا تو بھائی عبدالعزیز مغل صاحب نے مجھے ایک جیبی گھڑی دی کہ اسے مرمّت کردوں۔ جب مَیں نے مشین دیکھی تو سخت متعجب ہوا کہ اس میں ایک کے بجائے دو Main Spring لگے ہوئے تھے۔ مغل صاحب نے کہا جانتے ہو یہ کس کی گھڑی ہے؟ میرے نفی میں جواب دینے پر بتایا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی گھڑی ہے۔ اسی وقت مجھے اپنا پرانا خواب یاد آگیا۔ اور پھر مَیں نے گھڑی کو ٹھیک کیا۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ محترم چودھری عبدالرحیم صاحب کی وفات 29؍مئی 1969ء کو 71؍سال کی عمر میں ہوئی۔ آپ وفات تک اسلامیہ پارک لاہور کی جماعت کے صدر رہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں