مکرم چودھری مبشر احمد باجوہ صاحب

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، روزنامہ الفضل انٹرنیشنل 30؍جون 2025ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍جنوری2014ء میں مکرم مبشر احمد عابد صاحب نے اپنے دوست محترم چودھری مبشر احمد باجوہ صاحب کا ذکرخیر کیا ہے جن کی وفات 10؍اپریل2013ء کو اسّی سال کی عمر میں ہوئی اور حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔
محترم چودھری مبشر احمد باجوہ صاحب 1933ء میں داتازیدکا ضلع سیالکوٹ میں مکرم چودھری رشید احمد باجوہ صاحب کے ہاں پیدا ہوئے جو حضرت چودھری سرمحمد ظفراللہ خان صاحبؓ کے ماموں زاد تھے۔ ابتدائی تعلیم قادیان میں حاصل کی اور میٹرک تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ سے کیا۔ پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے اور پھر زمیندارہ کی خاطر داتازیدکا کے قریبی ایک گاؤں کھوکھروالی میں رہائش اختیار کی۔ علاقہ بھر میں سیاسی اثرورسوخ کے ساتھ مظلوموں کی مدد اور خدمت خلق میں بھی نام پیدا کیا۔ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے ٹیم تیار کرکے اپنے ہاتھ سے خدمت کرتے۔ آپ کے مخالفین بھی آپ کے ہمیشہ سچ بولنے کی گواہی برملا دیتے۔ احمدیت کی بہت غیرت تھی۔ چنانچہ اگر کسی بڑے سے بڑے آدمی نے بھی جماعت کے خلاف کچھ کہا ہوتا تو اُس سے پھر کبھی تعلق نہ رکھتے۔ جماعتی خدمت کا بہت شوق تھا لیکن عہدے کی کبھی خواہش نہیں کی۔ احمدیت کی خاطر بننے والے مقدمات میں اسیران کی بہت خدمت کرتے اور اُن کی ضمانتوں کے لیے ہرممکن کوشش کرتے۔ جن دیہات میں اِکّادُکّا احمدی گھرانے تھے اُن کا بہت خیال رکھتے۔ لیکن غریب پرور اتنے تھے کہ اس میں مذہب و ملّت کی تفریق نہ کرتے۔
خدمت دین میں ہمیشہ حاضر رہے۔مربیان کا بےحد احترام کرتے۔ مَیں جب آپ کے علاقہ میں تعیّنات ہوا تو مجھے ساتھ لے جاکر اہم افراد سے متعارف کروایا۔ اگر اپنے ڈیرے پر پولیس افسران اور دوسرے سرکردہ افراد کے ساتھ بیٹھے ہوتے تو میرے جانے پر فوراً وہاں سے اُٹھتے اور مجھے گھر لے آتے جہاں دوسرے احمدی دوست بھی اکٹھے ہوجاتے اور ہم اپنا پروگرام کرلیتے۔ مجھ سے عمر میں بہت بڑے تھے لیکن اس کے باوجود نہایت عاجزی سے خود اشیائے خورونوش اٹھاکر لاتے جس پر مجھے بےحد شرمندگی بھی ہوتی۔
آپ اپنے حلقہ کے امیر اور صدر جماعت تھے لیکن امیرصاحب ضلع نے امورعامہ کے بہت سے کام بھی آپ کے سپرد کررکھے تھے۔ جب نارووال ضلع بنا تو آپ امیر ضلع بھی رہے۔ نیز قاضی ضلع اور ناظم انصاراللہ ضلع کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پائی۔ مقامی جماعت کی صدارت مستقل آپ کے پاس رہی۔ 1995ء میں ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے بعد گردوں پر اثر پڑا اور عمومی صحت بھی کمزور ہوگئی۔ بوقت وفات بھی نائب امیر ضلع خدمت کررہے تھے۔
ایک بار جب علاقے میں فصل نہ ہوسکی تو ایک مخلص مقامی دوست نے مشورہ دیا کہ مرکز کو لکھ کر چندہ معاف کروالیا جائے۔ آپ نے اس مشورے کو ناپسند کیا اور کہیں سے قرض لے کر اپنا اور اُس دوست کا چندہ بروقت ادا کردیا۔ اسی طرح ایک دوست جو اپنے گاؤں کے نمبردار تھے انہوں نے ایک خواب کی بِنا پر احمدیت قبول کرلی۔ لیکن اُن کی اولاد احمدی نہ ہوئی اور اسی لیے وہ دوست اپنے آخری سالوں میں چندے کی ادائیگی بھی نہ کرسکتے تھے جس کی انہیں بہت تکلیف تھی۔ محترم باجوہ صاحب کو علم ہوا تو آپ نے خاموشی سے اُس دوست کا چندہ ادا کرکے اُنہیں کسی ذریعے سے یہ اطلاع بھی پہنچادی تاکہ عدم ادائیگی پر اُن کا دکھ دُور ہوجائے۔
دوسروں کا اس قدر خیال رکھتے کہ 1991ء میں جلسہ سالانہ قادیان پر گئے تو بیت الدعا میں چند منٹ دعا کرکے باہر آجاتے۔ پوچھنے پر بتایا کہ مسجد مبارک، بیت الفکر اور دوسرے مقامات پر لمبی دعا کرلیتا ہوں لیکن یہاں دوسروں کا خیال آتا ہے کہ باہر کھڑے انتظار کررہے ہیں۔
اسی جلسے پر جماعت سیالکوٹ خلیفہ وقت سے ملاقات کے لیے بیٹھی تھی۔ حضورؒ کے لیے کرسی رکھ دی گئی تھی اور لوگ اُس کے قریب حلقہ بنائے بیٹھے تھے لیکن چودھری صاحب کمرے کے آخر میں سر نیچے کیے بیٹھے تھے۔ اسی دوران حضورؒ تشریف لائے اور چودھری صاحب کے بالکل پیچھے کھڑے ہوگئے۔ اس موقع کی تصویر بھی ہے۔ پھر احباب کو پتا لگا تو حضورؒ کی کرسی وہاں لائی گئی اور ساری جماعت کا رُخ حضورؒ کی طرف ہوگیا۔ اس طرح چودھری صاحب سب سے آگے بیٹھے تھے۔ حضورؒ نے آپ کا حال بھی دریافت فرمایا۔ اس خداداد خوش قسمتی پر آپ کو احباب نے مبارکباد بھی دی۔
آپ نے اپنے گاؤں میں ایک مسجد بھی تعمیر کروائی جس کا سارا خرچ اپنے عزیزوں کے ساتھ مل کر اٹھایا۔ تعمیر مکمل ہوئی تو مسجد کی رجسٹری صدر انجمن کے نام منتقل کروادی۔
آپ نے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں