مکرم چودھری محمد نواز ججہ صاحب شہید

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 3 جولائی 2020ء)

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں مکرمہ فرزانہ طاہر صاحبہ کی زبانی اُن کے والد محترم چودھری محمد نواز ججہ صاحب شہید کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے جسے مکرمہ بشریٰ ماجد صاحبہ نے قلمبند کیا ہے۔
مکرم ججہ صاحب شہید کے آباواجداد کا تعلق اونچا ججہ ضلع سیالکوٹ سے تھا۔ آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر قبول احمدیت کی توفیق پائی تھی۔ آپ کی شادی غیرازجماعت فیملی میں ہوئی تھی لیکن آپ کی اہلیہ نے آپ کا حسن سلوک دیکھ کر کچھ عرصے بعد خود احمدیت قبول کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو بیٹے اور ایک بیٹی عطا فرمائے۔ آپ نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور اس سلسلے میں پیسے کی کبھی پروا نہیں کی۔بچوں کے رشتے کرتے وقت دوسرے خاندان کا صرف جماعت کے ساتھ تعلق مدّنظر رکھا۔ آپ نے اپنے ایک بیٹے مکرم ڈاکٹر فرخ نواز صاحب کو وقف بھی کیا۔ جب وہ گھر کے آرام کو چھوڑ کر نائیجیریا جانے لگے تو بہت گھبرائے اس پر آپ نے اُن کا حوصلہ بڑھایا اور یہی نصیحت کی کہ خلیفہ وقت سے جو عہد کیا ہے اس کو ہر حال میں نبھانا ہے۔
شہید مرحوم اکثر نمازیں سوزوگداز سے ادا کرتے۔ 1974ء کے فسادات میں شہید ہونے والے احمدیوں کا اکثر ذکرخیر کرتے۔ اُن کو شہداء سے خاص محبت تھی۔ شہیدمرحوم کا اپنے ملازمین کے ساتھ تو بہت مشفقانہ سلوک تھا ہی لیکن اُن کی شہادت کے بعد علم ہوا کہ کئی دیگر لوگوں کی بھی مدد کیا کرتے تھے۔ ایک شخص افسوس کرنے آیا تو پچاس ہزار روپے ہمراہ لایا جو انہوں نے اُسے دکان کی ڈیکوریشن کروانے کے لیے بطور قرض دیے تھے۔
شہید مرحوم بوقت شہادت اپنے حلقہ میں بطور محاسب خدمت کی توفیق پارہے تھے۔ آپ کو مسجد دارالذکر سے خاص لگاؤ تھا کیونکہ اس مسجد کی تعمیر کے وقت ہونے والے وقارعمل میں آپ بھی شریک ہوئے تھے۔ اُس وقت آپ لاہور میں زیرتعلیم تھے۔
شہادت والے دن آپ نے نیا سوٹ اور جوتے پہنے اور حسب عادت کافی وقت پہلے ہی مسجد چلے گئے۔ جب دہشتگردوں کا حملہ ہوا تو آپ تہ خانے میں چلے گئے لیکن بعد میں گرنیڈ کے حملے میں زخمی ہوکر شہید ہوگئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں