مکرم ڈاکٹر منور احمد صاحب شہید
ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ کے مختلف شماروں میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
آپ کے والد مکرم چودھری بشیر احمد صاحب اٹھوال ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے۔ آپ کی پیدائش 1957ء میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک گاؤں میں ہوئی۔ آپ کے خاندان میں احمدیت کا آغاز آپ کے پڑدادا کے ذریعہ ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے ابتدائی تعلیم سکرنڈ ضلع نوابشاہ میں حاصل کی جہاں آپ کے والد بسلسلہ روزگار مقیم تھے۔ میٹرک کے بعد طبیہ کالج ربوہ میں داخلہ لے کر ’فاضل الطب و الجراحۃ‘ کا امتحان پاس کرنے کے بعد سکرنڈ میں پریکٹس شروع کردی۔ 1984ء میں آپ کی شادی مکرمہ تنویر کوثر صاحبہ بنت چودھری فرزند علی صاحب سے ہوئی۔ وہ بتاتی ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی شہادت سے قبل مَیں نے خواب دیکھا کہ میری سونے کی چوڑیوں میں سے ایک چوڑی ٹوٹ کر گرگئی ہے اور ساتھ ہی بہت ہجوم ہے اور عورتیں باری باری میرے گلے لگ کر رو رہی ہیں لیکن میں سمجھ نہ سکی کہ وہ کیوں رو رہی ہیں۔ صبح اٹھ کر پریشان رہی، صدقہ بھی دیا مگر یوں محسوس ہوتاتھا کہ جسم سے جان نکل گئی ہو۔ ڈاکٹر صاحب شہید کو خواب سنائی تو کہنے لگے اللہ پر بھروسہ رکھو، جو رات قبر میں آنی ہے وہ باہر نہیں آئے گی۔ بہت بہادر انسان تھے کہا کرتے تھے کہ شہادتیں کسی کسی کو نصیب ہوا کرتی ہیں، کاش یہ رتبہ مجھے نصیب ہو۔
سکرنڈ کے حالات زیادہ خراب ہوئے تو بیوی سے کہنے لگے کہ ربوہ چلی جاؤ مگر اُنہوں نے کہا کہ آپ کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔ شہادت کے دن کلینک میں دو آدمی آئے اور گولیاں برسا کر آپ کو وہیں شہید کردیا۔ غم کا پہاڑ تھا جو اہل خانہ پر ٹوٹ پڑا۔ آپ نے بیوہ کے علاوہ ایک بیٹی اور تین بیٹے چھوڑے۔