میری زندگی کے نشیب و فراز- (میاں اقبال احمد۔ شہید راجن پور)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍اکتوبر 2002ء میں محترم میاں اقبال احمد صاحب ایڈووکیٹ (امیر ضلع راجن پور) نے ایک مضمون میں اپنی ذات پر ہونے والے اللہ تعالیٰ کے بے شمار افضال اور قبول احمدیت کے حوالہ سے بعض یادوں کو بیان کیا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس مضمون کی اشاعت کے محض دو ماہ بعد ہی آپ کو راہ مولیٰ میں شہید ہونے کی سعادت ملی۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ میری عمر محض دو سال تھی جب میری والدہ غلط علاج کے باعث وفات پاگئیں۔ وہ بہت متوکّل خاتون تھیں۔ مَیں نے اُن کی کمی کو ہمیشہ محسوس کیا اور ایک بار حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی خدمت میں اس بارہ میں لکھا تو آپؓ نے جواباً تحریر فرمایا: ’’آپ مجھے ماں کہہ لیا کریں‘‘۔
دس بارہ سال کی عمر میں ایک بار جب حضرت امام حسین علیہ السلام کے بارہ میں ایک کتاب پڑھی تو دل بھر آیا، جنگل میں چلا گیا اور روتا رہا، پھر دعا کی کہ مولا! امام الزمان کو بھیج دے، مَیں اُن کا ساتھ ضرور دوں گا۔
میرے تایا میاں عارف محمد صاحب (مرحوم) احمدی تھے ۔ اُن کے نام الفضل آیا کرتا تھا۔ اُس میں ایک شاعر کی نظم چھپی جس کا ایک مصرعہ بہت پسند آیا:

ربوہ کی وادیوں میں گونجی اذاں تمہاری

تایا کے ایک بیٹے مقبول (ایڈووکیٹ چشتیاں) اور ایک بیٹی بشریٰ (جو بعد میں میری بیگم بنی) تھے کہ تائی کی وفات ہوگئی اور انہوں نے دوسری شادی کرلی۔ نئی تائی نے ہم سب کو اپنے دامن محبت میں لے لیا۔ کچھ نظمیں یاد کرائیں جن میں سے اس شعر کو مَیں بہت شوق سے پڑھا کرتا تھا:

وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نُور سارا
نام اُس کا ہے محمد دلبر میرا یہی ہے

1953ء میں مجھے احمدی ، غیراحمدی کا واضح فرق اُس وقت پتہ چلا جب مقبول کو لوگوں نے پانی پینے سے بھی روک دیا۔ ایک بار لوگوں سے چھپاکر مَیں نے اُسے پانی بھی لاکر دیا۔
جب مَیں نے میٹرک کرلیا تو مزید تعلیم کے لئے دو تین شہروں کے نام زیر غور آئے لیکن میرے لئے مقبول کی دوستی اور ربوہ کی وادی کا تصور بہت پُرلطف تھا۔ خیال تھا کہ ربوہ ایک سرسبز وادی ہے جہاں کا ٹھنڈا موسم، قدرتی چشمے اور خوبصورت ندیاں اپنے ترنم سے جنت کا سماں پیش کرتی ہیں۔ چنانچہ ایک سہ پہر ربوہ کے بس سٹاپ پر اُترا تو لق و دق میدان میں گوڈے گوڈے کلر نظر آیا۔ صرف ایک کیکر کا درخت تھا جس کے نیچے دو تین تانگے تھے۔ تانگے والے گھوڑوں سے ضعیف اور گھوڑے اُن سے ضعیف۔ سوچا کہ وادی پہاڑ کے دوسری طرف ہوگی۔ ایک کوچوان کو مقبول کا پتہ بتایا تو وہ دارالنصر تک تانگہ لے گیا لیکن وادی نظر نہ آئی۔
صبح کالج پہنچے۔ سادہ سا کالج، بارعب پرنسپل، داخلہ منظور ہوا۔ شیخ محبوب عالم خالد صاحب بہت محبت سے اردو پڑھاتے اور بسکٹ کھلاتے تھے۔ سکول سے ڈنڈے کھاکر آنے والوں کے لئے یہ نئی بات تھی۔ وہ سبق کے دوران احمدیت کا ذکر نہ کرتے تھے لیکن اُن کی محبت کی وجہ سے ہم بلاتکلّف بعد میں بھی اُن کے پاس چلے جاتے تو کبھی کبھی وہ احمدیت کی بات کرلیا کرتے تھے۔
اسی دوران پتہ چلا کہ مسیح الزمان آچکے ہیں۔ چنانچہ (قبول احمدیت کے نتیجہ میں) ایک نئی زندگی کا آغاز ہوا ۔ ایسی زندگی جو زندگی کی آرزو سے بے نیاز کردیتی ہے۔
کئی واقعات نے مجھ پر گہرا اثر چھوڑا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ ایک بار کراچی آئے تو آپؒ کی قیامگاہ پر ڈیوٹی تھی۔ ایک لمبی سیاہ رنگ کی کار میں جناب ایم ایم احمد صاحب اُترے۔ جب گیٹ کے قریب پہنچے تو رُک گئے، سر پر ہاتھ پھیرا جو ننگا تھا۔ ڈرائیور سے فرمایا: ٹوپی لاؤ۔
اسی طرح حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ احمدیہ ہال کراچی سے باہر نکل رہے تھے ۔ ایک ہاتھ میں جوتے پکڑے تھے اور دوسرے سے ملنے والوں سے ہاتھ ملا رہے تھے۔ مَیں نے اُن کے جوتے پکڑنے چاہے لیکن انہوں نے منع فرمادیا۔
تعلیم سے فراغت کے بعد غم روزگار نے آلیا۔ راجن پور میں رزق کی تلاش شروع کی۔ یہیں 1974ء کا وہ مبارک سال آیا جس میں جماعت پر فضل و احسان کی وہ بارش ہوئی جس سے میرا دامن بھی خالی نہ رہا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں