میری والدہ حضرت سیّدہ آصفہ بیگم صاحبہ
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 11؍نومبر2024ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ صاحبزادی شوکت جہاں صاحبہ اپنی والدہ محترمہ حضرت سیّدہ آصفہ بیگم صاحبہ حرم محترم حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کا ذکرخیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ بعض خوبیاں ایسی ہوتی ہیں کہ آدمی سوچتا ہے کہ کاش یہ خوبیاں میرے میں بھی پیدا ہو جائیں۔ اُمّی کے مزاج کی نرمی بھی ایسی ہی تھی۔ کبھی کوئی سخت بات بھی سُنا جاتا تھا تو پلٹ کر جواب نہ دیتی تھیں۔ مہمان نواز اور سادہ مزاج تھیں۔ کوئی نہ کوئی گھر میں آیا ہی رہتا تھا، ابّا کا اکثر ہی دفتر سے فون آجایا کرتا تھا کہ آج اتنے آدمی میرے ساتھ ہوں گے کھانے کا انتظام کرلو۔ امی کے ساتھ اکثر مَیں بھی لگ جاتی۔اُس وقت ابھی بڑے فریزر نہیں آئے تھے یا شاید ابھی ہمارے گھر نہیں آیا تھا اور ربوہ کے بازار میں بھی ریڈی میڈ کھانا نہیں ملتا تھا۔ لیکن ہم پھر بھی کچھ نہ کچھ کرکے انتظام کر ہی لیتے تھے۔ کئی دفعہ دوپہر کو جب ملازم آرام کے لیے اپنے کوارٹروں میں چلے گئے تو مَیں اُمّی کو کبھی کہتی تھی کہ آپ ملازموں کو کیوں نہیں بُلواتیں؟ اکیلی ہی لگی ہوتی ہیں۔ تو کہتی تھیں کہ اُنہیں آرام کرنے دو، وہ صبح سے کام کر رہے ہوتے ہیں۔
بہت غریب پرور تھیں۔ لوگوں کے کام بڑی خوشی سے آتی تھیں۔ کبھی کسی کا جہیز بن رہا ہے۔ کوئی عورت کہہ جاتی تھی کہ میرے بچے کی شادی ہے مگر میرے لیے مشکل ہے کہ لاہور وغیرہ جاکر کپڑے زیور وغیرہ بنواؤں۔ اُمّی لاہور کے پھیرے لگاتیں اور جہیز اور بری وغیرہ تیار کرتیں ۔ بہت دل لگا کر دوسروں کے کام کرتی تھیں۔ Taste بھی بہت اچھا تھا اور سامان تیار ہو جاتا تھا تو بہت خوبصورت پیکنگ کرکے سجا سنوار کے دیا کرتی تھیں۔ ہم بڑے شوق سے جہیز کو پیک کرتے اور وصول کرنے والوں کے چہروں کی خوشی دیکھتے۔
امی کی طبیعت بہت پُرمزاح تھی۔اس سے بعض لوگوں کو یہ تاثر پیدا ہوتا کہ ایسے ہی لاپروا سی ہیں لیکن حقیقت بالکل برعکس تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ابّا کی خلافت کا پہلا سال تھا، میں ربوہ گئی تو اُمّی بہت تھکی ہوئی اور اُداس لگ رہی تھیں۔ پوچھنے پر کہنے لگیں کہ لوگوں کے غم سُن سُن کر تو مَیں بیمار پڑگئی ہوں،کئی دفعہ راتیں جاگتے گزرتی ہیں۔
خلافت سے پہلے بھی ابّا کی بہت اطاعت کرتی تھیں۔ جو بات ابّا کو پسند نہ ہوتی تھی ہمیں روکتی تھیں کہ یہ بات یا حرکت نہ کرو تمہارے ابّا کو پسند نہیں، یہاں تک کہ کھانے میں بھی اگر اُمّی کو کوئی چیز پسند تھی مگر ابّا زیادہ شوق سے نہیں کھاتے تھے تو وہ ہمارے گھر میں نہیں بنتی تھی۔ جب ابّا کبھی ربوہ سے باہر گئے ہوتے تو تب بنوا لیتی تھیں۔
جب ہجرت کرکے لندن آئے تو کچھ سالوں کے بعد ابّا نے محسوس کیا کہ اُمّی شاید پاکستان کے لیے بہت اداس ہیں۔ اُداس تو خیر ابّا بھی بہت ہوتے تھے، مگر ابّا کو ہمیشہ اپنے سے زیادہ لوگوں کے جذبات کا ہی خیال رہتا تھا۔ بہرحال ابّا نے اُمّی کو کہا کہ مَیں تو مجبور ہوں اور جا نہیں سکتا مگر تم تو جا سکتی ہو۔ تم کچھ عرصہ کے لیے پاکستان ہو آؤ، سب سے مل کر اور اپنا گھر دیکھ کر دل بہل جائے گا۔ مگر اُمّی نے انکار کر دیا۔ مَیں نے بعد میں اُمّی کو کہا کہ جب ابّا بھی کہہ رہے ہیں تو آپ ہو آئیں۔ تو کہنے لگیں کہ نہیں، اگر میں ایک دفعہ بھی ہو آئی تو ابّا کو پاکستان نہ جاسکنے کا زیادہ احساس ہوگا، اس لیے میں نے نہیں جانا۔
وہ میری ماں ہی نہیں بلکہ دوست اور رازداں بھی تھیں۔ اپنے بچوں کے ساتھ اُمّی کا سلوک ہمیشہ دوستوں والا رہا۔ اگرچہ مَیں نے اپنی ماں ہی نہیں بلکہ اپنی عزیز دوست بھی کھو دی۔ پر آفرین ہے ابّا پر کہ بےانتہا کاموں کے با وجود صرف باپ کی طرح ہی نہیں بلکہ ماں کی طرح بھی ہماراخیال رکھا اور ہم میں ہنستے مُسکراتے جینے کا حوصلہ پیدا کیا۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بہت پیارا مضمون لکھا ہے میری بھی بہت ساری یادیں حضور سے وابستہ ہیں کچھ کا زکر کرنے کیلئے الفاظ کا چناؤ انتہائی مشکل ہے کچھ ایسی یادیں تصاویر ایسی ہیں جن کا ذکر اکثر کرتا ہوں ابھی تک اپنے بچوں کے ساتھ ۔
نعیم احمد رضا