میرے والدین محترم میر داؤد احمد صاحب اور محترمہ صاحبزادی امۃالباسط صاحبہ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 23؍ستمبر2024ء)

حضرت میر محمد اسحٰق صاحب

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے2013ء نمبر1 میں محترمہ امۃالناصر نصرت صاحبہ اپنے محترم والدین کا ذکرخیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ والدین ہر بچے کا آئیڈیل ہوتے ہیں لیکن اگر والدین کے گزر جانے کے بعد آپ اپنے ارد گرد ہر طبقے سے ان کی تعریفیں اور ایسی نیکیاں سنیں، جن سے پہلے بےخبر تھے تو بےحد خوشی ہوتی ہے اور سر بےاختیا ر ہو کر خدا کے حضور شکر سے جھک جاتا ہے کہ یا اللہ تُونے ان بزرگوں کی اولاد میں پیدا کرکے کتنا بڑا احسان کیا ہے۔

محترم میر داؤد احمد صاحب

ہمارے ابا (محترم میر داؤد احمد صاحب) کی وفات کو تقریباً چالیس سال کا عرصہ گذرگیا ہے پھر بھی ہم بچوں کو کسی نہ کسی سے ملاقات کرتے ہوئے ایسے واقعات سننے کو مل جاتے ہیں جن میں ابا کے لیے شکرگزاری کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً خدمت کے لیے ہر وقت تیار، بغیر مانگے لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش وغیرہ۔

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ

ابّا کے تایا حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ کی بیٹی محترمہ امۃالرفیق صاحبہ نے مجھے یہ بتایا کہ حضرت میر صاحبؓ کو دمہ کی تکلیف تھی اس کی وجہ سے جب سانس میں گھٹن محسوس کرتے تو صحن میں ٹہلتے تھے اور بعض اوقات تھک کر زمین پرہی بیٹھنے لگتے تھے۔ چنانچہ ابا اُن کے پیچھے پیچھے ٹہلتے جاتے اور جہاں کہیں وہ تھک کربیٹھنے لگتے تو ابا اپنا ایک گھٹنا زمین پر ٹکا کر، اس کے سہارے اس طرح بیٹھ جاتے کہ دوسری ٹانگ کا گھٹنا کرسی کی طرح بن جاتا جس پر حضرت ڈاکٹر صاحبؓ بیٹھ جاتے اور جتنی دیر تک وہ بیٹھے رہتے ابا بھی اسی پوزیشن میں رہتے ہوئے اُن کو سہارا دیے رہتے۔

اسی طرح مَیں سوچتی ہوں کہ حضرت مصلح موعودؓ کی ساری بیٹیوں نے آپؓ سے وفا کی اور آپؓ کی وفات کے بعد بھی اس بات کا خیال رکھا کہ جو بات حضورؓ کو اپنی زندگی میں پسند نہیں تھی وہ آپؓ کے وصال کے بعد بھی نہ کریں۔ امّی بھی حضورؓ کی ایسی ہی ایک بیٹی تھیں۔
امّی کی شخصیت کے دو تین پہلو مجھے بہت متأثر کرتے تھے۔ پہلا یہ کہ جیسے کوئی اللہ سے چمٹ جائے ویسے ہی امی چمٹ گئی تھیں ۔ بہت چھوٹی عمر میں ہی اپنے بہت قریبی عزیزوں کی جدائی دیکھی جب بظاہر یہ جدائی وقت سے پہلے لگتی تھی لیکن کبھی کوئی شکوہ لبوں پر نہیں آیا۔ آپ کو بس اپنے اللہ کے حضور ہی گریہ و زاری کرتے دیکھا۔
دوسرا پہلو خلافت سے گہری وابستگی تھی۔ خلیفۂ وقت کی ہرتحریک پر لبیک کہتی تھیں۔ خدا کے فضل سے ایسا ہوا کبھی نہیں لیکن اگر انہیں کبھی وہم میں بھی خیال آجاتا کہ کہیں خدانخواستہ خلیفہ ٔوقت کسی بات پر ناراض نہ ہوں تو بڑی سخت بےقرار ہوجاتی تھیں۔ کسی کَل چین نہیں پڑتا تھا جب تک یہ تسلی نہیں ہوجاتی تھی کہ ایسی کوئی بات نہیں۔
تیسرے امّی کا اعلیٰ ظرف۔ مجھے وہ لوگ یاد ہیں جو امی سے نامناسب لہجے میں، نامناسب طریق پر بات کرجاتے تھے۔ مجال ہے جو ماتھے پر شکن تک لاتی ہوں یا اگلی ملاقات میں کبھی اشارۃً بھی اس سے ناراضگی کا اظہار کیا ہو بلکہ اسی طرح محبت سے ملتی تھیں جو اُن کا خاصہ تھا اور اسی طرح دعاؤں میں شامل رکھتی تھیں جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں