میں کس طرح احمدی ہوا = تحریر: حاجی امین اللہ صاحب آف ڈیٹن

جماعت احمدیہ امریکہ کے ماہنامہ ’’النور‘‘ جنوری 2007ء میں مکرم حاجی امین اللہ صاحب آف ڈیٹن اپنے قبول احمدیت کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ 1970ء کے ابتدائی سالوں میں مَیں غیراحمدی مسلمان تھا۔ لیکن اکثر مکرم مظفر ظفر صاحب مرحوم اور کچھ دوسرے احمدی بھائیوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا۔ اُنہی دنوں میری بہن کو کسی نے قتل کر دیا۔ جب میں اسے دفنا کرقبرستان سے باہر نکلا تو میں نے پستول لے کر قاتل کو ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ ایک روز مسجد احمدیہ ڈیٹن کے سامنے سے گزر رہا تھا کہ کسی چیز نے مجھے رُکنے پر مجبور کیا۔ جب ایسا بار بار ہوا تو میں گاڑی پارک کرکے مسجد کے اندر چلا گیا اور مکرم مظفر ظفر صاحب کے بارہ میں دریافت کیا لیکن وہ اس وقت مسجد میں نہیں تھے۔ میں کچھ دنوں بعد پھر گیا تو اُن سے اور کچھ اَور دوستوں سے ملاقات ہوگئی۔ ہم اسلام کے بارہ میں بات چیت کرتے اور قرآن کریم پڑھنا سیکھتے اور نماز بھی اکٹھے پڑھتے لیکن میں نے ابھی تک احمدیت قبول نہیں کی تھی۔ آہستہ آہستہ مجھے احساس ہونے لگا کہ اپنی بہن کے قاتل کو ڈھونڈنے کی بجائے بہتر یہی ہے کہ مَیں خداوند کریم کو تلاش کروں۔
کچھ عرصہ بعد ہم سب حج کرنے بھی گئے۔ ایک دن مدینہ کے مقامی احباب حج اور خلافت کے موضوع پر بحث کررہے تھے۔ میرے نزدیک وہ غلط تھے۔ اس پر میں نے انہیں حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کا اس موضوع پر انگریزی ترجمہ دیا تو وہ اُسی وقت کہنے لگے کہ یہ بالکل درست وضاحت ہے۔ تب مجھے خیال آیا کہ اگر احمدیت ان مقامی اور عالم لوگوں کو سچا راستہ دکھا رہی ہے تو پھر ضرور یہ سچی جماعت ہے۔
پھر کچھ دنوں بعد جب ہم مکہ پہنچے تو مَیں نے خواب میں خود کو سبز قالین پر نماز پڑھتے دیکھا۔ یہ خواب جب مَیں نے ایک احمدی بھائی کو بتائی تو اُس نے کہا ’’مبارک ہو اور احمدیت میں خوش آمدید‘‘۔ بہرحال واپس ڈیٹن آکر مَیں نے احمدیت قبول کرلی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں