تعارف کتاب: ’’نمی کا عکس‘‘
تعارف کتاب ’’نمی کا عکس‘‘
(ناصر محمود پاشا)
نام کتاب: ’’نمی کا عکس‘‘
مصنفہ: امۃالباری ناصر صاحبہ
ناشر: لجنہ اماء اللہ ضلع کراچی
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 29 اگست 2014ء)
آج ہمارے پیش نظر ایک ایسی شاعرہ کی کتاب ہے جس کے بارہ میں یہ حکایت صادق آتی ہے کہ جوہر کی قدر جوہری ہی جانتا ہے۔ چنانچہ معروف شاعرہ محترمہ امۃالباری ناصر صاحبہ بھی اُن چند خوش نصیب افراد میں سے ہیں جن کی سخنوری اور فکری بالیدگی نے دربارِ خلافت سے ایسی داد سمیٹی جو محض چند خوش قسمت شعراء کے حصے میں ہی آسکی ہے۔ بلاشبہ اپنے زمانہ کے عظیم سخن شناس (یعنی حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) ایسے جوہر شناس تھے جو سونے کو کندن بنانے کے عمل سے بخوبی آشنا تھے اور کتاب ’’نمی کا عکس‘‘ کا مطالعہ اس امر کا ثبوت ہے کہ ؎
اِک خاک کے ذرّے پہ عنایات کا عالم
کچھ اس طرح سے ہوا کہ جس نے اس ذرّۂ خاک کو نمو کے مراحل سے گزار کر ایک گوہر بنانے میں اپنی دعاؤں اور راہنمائی کو یکجا کردیا۔ یقینا یہ سعادت اپنے زورِ بازو سے حاصل نہیں کی جاسکتی۔
’’نمی کا عکس‘‘ 416 صفحات پر مشتمل ایک ایسی کتاب ہے جواپنے ظاہری حسن (دیدہ زیب سرورق، نفیس کتابت، عمدہ طباعت اورڈیزائننگ) کے ساتھ ساتھ باطنی حسن کا بھی مرقّع ہے۔ اس میں گہرے معانی اور عرفان کے حامل مضامین بھی کثرت سے ملتے ہیں اور سادہ انداز میں کہی جانے والی پُراثر نظموں کی بھی خاصی تعداد موجود ہے۔ مزاحیہ نظموں میں بیان شدہ دُوررَس نکات بھی پڑھنے والے کے لبوں پر تبسم بکھیر دیتے ہیں۔ بے تکلّفی اور سادگی کے باوجود جگہ جگہ ایسے استعارے اور تشبیہات ملتی ہیں جو نہایت خوبصورتی سے اُن لطیف جذبات کو قاری میں منتقل کردیتی ہیں جسے کئی پردوں میں چھپاکر شاعر نے پیش کیا ہو۔ اس مجموعۂ کلام میں بلاشبہ بے شمار ایسی نظمیں ہیں جو نظروں کے راستے حساس دلوں میں اُتر جائیں اور اپنے ماحول میں رہتے ہوئے بھی قاری کو اُس سے بے نیاز کردیں۔ امر واقعہ یہی ہے کہ موصوف شاعرہ کے کلام پر اظہار خیال گویا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ پس بہتر یہی ہے کہ اس خوبصورت کلام سے کچھ انتخاب قارئین کی نذر کرکے اس لطف و جمال میں اُنہیں بھی شریک کرلیا جائے جس نے ہمیں بھی اپنے سحر میں گرفتار کررکھا ہے۔
سب سے پہلے اُس نظم سے انتخاب پیش ہے جو اس کتاب کی وجہ تسمیہ بنی:
ہوا ہے صبر کا پیمانہ لبریز
الٰہی اذن ہو اب واپسی کا
جلو میں لاتا ہے سیلابِ رحمت
ذرا سا عکس آنکھوں میں نمی کا
جو چاہی کرب نے صورت بنالی
مرے بس کا نہیں فن شاعری کا
…………………
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مدح میں کہی جانے والی ایک خوبصورت نظم کا شعر ہے:
سلام ان نیم وا آنکھوں پہ رحمت بار نظروں پر
کبھی دل کو کریں گھائل کبھی تحلیل جاں کردیں
…………………
’’اکرام کی بارش‘‘ کے عنوان سے ایک نظم میں شاعرہ موصوف نے خلفائے احمدیت کے بارہ میں اپنے تأثرات قلمبند کئے ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے حوالہ سے کہتی ہیں:
مولا نے دیا ہے ہمیں پانچواں مظہر
دل کو مرے خود ان کی محبت سے بھرا ہے
وہ نُور ہے چہرے پہ نگاہیں نہیں ٹکتیں
یہ کیوں نہ ہو اللہ تو خود ساتھ کھڑا ہے
…………………
ایک بہت خوبصورت غزل کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں:
دلِ مضطر نے بتایا ہے دُعا کا اسلوب
ہم سے سیکھیں جہاں والے وفا کا اسلوب
سامنے سب کے نکل آئیں نہ گھر سے باہر
ہم نے اشکوں کو سکھایا ہے حیا کا اسلوب
…………………
اور ’’ایم ٹی اے‘‘ کے بارہ میں اپنے دلی جذبات اور اس کے عالمگیر اثرات کا اظہار کس قدر دلوں کو گرما دینے والا ہے۔ کہتی ہیں:
ایم ٹی اے ہم جان سے پیارا رکھتے ہیں
کس کو خبر ہم کس عالم میں رہتے ہیں
چشمِ فلک نے پہلی بار یہ دیکھا ہے
لاکھوں ہاتھ اک ساتھ دعا کو اٹھتے ہیں
ایک مسیحا ہاتھ ہے سب کی نبضوں پر
ایک اشارے پر سب بیٹھتے اٹھتے ہیں
ایک ہی تال پہ رقص کناں ہیں لاکھوں دل
لاکھوں پریمی ایک پیا پہ مرتے ہیں
اس کنبے میں سب کی خوشیاں سانجھی ہیں
ایک ہو خوش تو لاکھوں چہرے کھلتے ہیں
بانٹتے ہیں ہم سارے غم اک دوجے کے
ایک کو دکھ ہو لاکھوں کے دل دکھتے ہیں
پیار بھرا اک ہاتھ ہمارے سر پر ہے
اس کے میٹھے سائے میں ہم رہتے ہیں
دنیا کا ہر گوشہ اپنا مسکن ہے
کہیں بھی ہوں ہم ایک ہی گھر میں رہتے ہیں
…………………
ایم ٹی اے کے عالمی اثرات کا ذکر کرتے ہوئے اپنی ایک دوسری نظم میں کہتی ہیں:
ہر سمت جائے گی صدا ہے سارا آسماں کھلا
ڈر ہے نہ احتیاط ہے اک عالم نشاط ہے
حاصل اب اُن کی دید ہے ہر روز روزِ عید ہے
ہر شب شبِ برات ہے اک عالم نشاط ہے
…………………
ایک غزل کے چند اشعار جو کسی گہرے احساس کے غمّاز ہیں:
غلط ہے آسماں سوکھا پڑا ہے
زمیں کی کوکھ بنجر ہوگئی ہے
وہ تنہا شخص طوفاں بن کے پھیلا
وہ اک ندی سمندر ہوگئی ہے
تصوّر ایک گل چہرے کا باندھا
فضا ساری معطّر ہوگئی ہے
…………………
خلافت احمدیہ کے دنیابھر میں پھیلے ہوئے فیوض و انوار اور خلیفۂ وقت کے حسن و احسان کا ذکر کرتے ہوئے آپ ایک نظم میں کہتی ہیں:
فیض میں آفتاب لگتا ہے
حسن میں ماہتاب لگتا ہے
دیکھئے جس بھی زاویئے سے اُسے
پور پور انتخاب لگتا ہے
بات میں رنگ اور خوشبو ہے
لہجہ بالکل گلاب لگتا ہے
روز دیکھے ہیں خواب ملنے کے
جب سے دیکھا ہے خواب لگتا ہے
…………………
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی یاد میں کہی گئی ایک دلگداز نظم کی ہر سطر سے ’نمی کا عکس‘ آنکھ سے ٹپکتا دکھائی دیتا ہے۔ اس طویل نظم کے دو بند ملاحظہ فرمائیں:
اِک فقط مَیں ہی جدائی پہ نہیں ہوں دلگیر
اِک دنیا ہے ترے حسن کی احساں کی اسیر
لوگ یوں تڑپے ہیں، روئے ہیں، نہیں جس کی نظیر
سب کو جو اُن سے تعلق تھا وہ سب یاد آئے
مَیں بہت روئی مجھے آپ بہت یاد آئے
ہر گھڑی جنگ کڑی اُس نے لڑی ہے مولا
زندگی دعوتِ دیں میں ہی کٹی ہے مولا
تا دمِ واپسیں خدمت ہی رہی ہے مولا
پُرسکوں سوئے ہوئے آپ بہت یاد آئے
مَیں بہت روئی مجھے آپ بہت یاد آئے