نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر11)

نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر11)
(کاوش: فرخ سلطان محمود)

سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفین نو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مختلف پہلوؤں سے اُن کی راہنمائی کا سلسلہ جاری فرمایا ہوا ہے۔ اس میں اجتماعات اور اجلاسات سے خطابات، پیغامات کے ذریعہ ہدایات، رسائل کا اجراء اور وقف نو کلاسوں کا انعقاد بھی شامل ہے۔ مستقبل کے احمدی نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ اُس وقت بھی جاری رہتا ہے جب حضور انور کسی ملک کے دورہ پر تشریف لے جاتے ہیں۔ وہاں کے واقفین نو بھی یہ سعادت حاصل کرتے ہیں کہ براہ راست حضور انور کی رہنمائی سے فیض حاصل کرسکیں۔ ان واقفین نو کو کلاسوں کے دوران حضورانور جن نہایت اہم نصائح سے نوازتے ہیں اور جو زرّیں ہدایات ارشاد فرماتے ہیں وہ دراصل دنیا بھر میں پھیلے ہوئے واقفین نو کے لئے بیش بہا رہنمائی کے خزانے رکھتی ہیں۔ حضور انور کی واقفین نو کے ساتھ کلاسوں میں سے ایسے چند حصے آئندہ صفحات میں پیش کئے جارہے ہیں جنہیں واقفین نو کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

کینیڈا میں واقفین نَو کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کلاس
(بتاریخ 25مئی 2013ء بمقام مسجد بیت النور کیلگری)

تلاوت قرآن کریم سے کلاس کا آغاز ہوا۔ پھر تلاوت کا اردو اور انگریزی ترجمہ پیش کیا گیا۔ اس کے بعد حدیث مبارکہ اور اس کا اردو و انگریزی ترجمہ پیش کیا گیا۔ حدیث یہ تھی:
حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کی طرف اور جو انسان ہمیشہ سچ بولے اللہ کے نزدیک وہ صدیق لکھا جاتا ہے اور جھوٹ، گناہ اور فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فسق و فجور جہنم کی طرف اور جو آدمی ہمیشہ جھوٹ بولے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذّاب لکھا جاتا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الادب)
بعدازاں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کا منظوم کلام ؎

ہے شکر رب عز و جل خارج از بیاں
جس کے کلام سے ہمیں اس کا ملا نشاں

خوش الحانی سے پیش کیا گیا۔ اس نظم کا انگریزی ترجمہ بھی پڑھا گیا۔
اس کے بعد سچائی کے عنوان پر ایک بچے نے تقریر کی۔ اور پھر پروگرام کے مطابق حضور انور نے بچوں کو سوالات کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔

واقفین نو بچوں کے ساتھ مجلس سوال و جواب

…٭…ایک واقفِ نو بچے نے پوچھا کہ حضور سیسکاٹون کب تشریف لائیں گے؟ اس پر حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے جوابًا فرمایا کہ جب اللہ چاہے گا۔
…٭…ایک اور واقفِ نو نے عرض کی کہ وہ MBA کر رہے ہیں اور اس پر 19 ہزار ڈالرز خرچ ہوں گے۔تو کیا واقفینِ نو اسٹوڈنٹس لون (Loan)لے سکتے ہیں؟
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بچے سے دریافت فرمایا کہ کیا یہ لون (Loan) سود کے بغیر ہوگا؟ جس پر طالب علم نے عرض کی کہ حضور کچھ مدّت کے بعد دو فیصد سود لگے گا۔اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مزید دریافت فرمایا کہ جب تک پڑھ رہے ہیں اس وقت تک کوئی سود نہیں ہے؟ اس پر طالبعلم نے عرض کیا کہ ایسا ہی ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اگر بغیر سود کے ہے تو لے سکتے ہیں لیکن اگر کوئی اور مجبوری ہو تو مجھے بھی بتا سکتے ہیں۔
…٭…ایک واقفِ نو نے سوال کیا کہ ان کے غیر احمدی دوست ہیں اور وہ پوچھتے ہیں کہ قرآنِ کریم سے کس طرح ثابت کیا جا سکتا ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام مسیح موعود اور امام مہدی ہیں؟
حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:بہت ساری باتیں ہیں جن پر مسلمان عمل کرتے ہیں مگر وہ قرآن میں نہیں پائی جاتیں۔ کیاقرآنِ کریم سے ثبوت ملتا ہے کہ ہمیں نمازِ فجر کی دو سنتیں اور دو فرض ادا کرنے چاہئیں؟ یا پھر جس طرح ہم ظہر کی نماز پڑھتے ہیں اور عصر کی نماز پڑھتے ہیں ، اس کی تفصیل ملتی ہے؟ اور پھر مغرب اور عشاء کی نمازوں ہیں۔ کیا ان کی رکعتوں کا قرآن کریم میں کوئی ثبوت ہے؟
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پس ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ بعض چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کس طرح کیں ؟اب فرض نمازوں کی جو رکعات ہیں، جو سنتیں ہیں اور جو نوافل ہیں یہ سب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق کے مطابق کررہے ہیں۔اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسیح موعود کی بعثت کے بارہ میں پیشگوئی فرمائی کہ ایک وقت آئے گا کہ جب مسلمان صرف نام کے مسلمان ہوں گے اور عمل کے لحاظ سے نہیں ہوں گے۔الفاظ کے سواقرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اور اس زمانہ میں مساجد بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ مہدی کی آمدکے کچھ نشانات ہوں گے اور وہ نشانات قرآنِ کریم میں بھی ہیں۔ مثلًاپۡرانے زمانہ کے ذرائع آمدو رفت ترک کردیئے جائیں گے۔ اوراب ہم یہ دیکھ بھی رہے ہیں کہ وہ چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ کوئی بھی شخص اب گھوڑا، اونٹ یا اور اس قسم کی کوئی چیز آمد و رفت کے لئے استعمال نہیں کرتا۔ اور اس کے علاوہ قرآنِ کریم میں اور بھی کئی نشانات ہیں۔مثلاً پریس اور میڈیا اور پیغام پھیلانے وغیرہ کے ذرائع کے بارہ میں ذکر ہے اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ ہورہاہے اور ساری دنیا میں نشرواشاعت اور ذرائع مواصلات ایسے ہیں کہ منٹوں میں پیغام پہنچ جاتاہے۔ سورۃ التکویر میں بہت ساری پیش گوئیاں ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ اور سورتیں بھی ہیں جہاں امام مہدی کے زمانہ کے حوالہ سے پیشگوئیاں موجود ہیں۔ اگر آپ پڑھیں تو آپ کو پتہ لگ جائے گا کہ وہ تمام پیشگوئیاں جو قرآن شریف میں موجود ہیں وہ اِ س زمانہ میں پوری ہو چکی ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ: قرآن شریف کی تفسیر کون کرتاہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود کرتے ہیں۔ تو جب سورۃ الجمعۃ کی یہ آیت

وَ آخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِم

نازل ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں جو یہاں تو نہیں ہیں لیکن ہم سے آخری زمانہ میں ملیں گے؟ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا کہ وہ لوگ اِن لوگوں میں سے ہوں گے یعنی اہلِ فارس یا غیر عرب لوگوں میں سے ہوں گے۔ تو یہ وہ باتیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں موجود ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ: پھر اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو ایسے نشانات ہیں جو اس سے پہلے کبھی بھی نہیں ہوئے اور نہ آئندہ کبھی ہوں گے۔ وہ آسمانی نشانات ہیں اور وہ نشانات سورج اور چاند کا گرہن ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر اس بات کا ذکر کیا کہ جن تین دنوں میں چاند اور سورج گرہن ہوتے ہیں ، ان میں سے چاند گرہن پہلے دن اور سورج گرہن دوسرے دن ہوگا۔ اور یہ 1894ء میں ہوا۔ وہ لوگ جو فلکیات کا علم رکھتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ چاند گرہن تین دنوں یعنی مہینہ کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخوں میں سے ہوتا ہے۔ اور سورج گرہن 27، 28اور 29تاریخوں میں ہوتا ہے۔ اور اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی بیان فرمایا کہ یہ گرہن رمضان کے مہینہ میں ہو گا۔ 1894ء میں یہی بات مشرقی hemisphere میں ہوئی اور 1895ء میں یہی بات مغربی hemisphere میں ہوئی۔ اور شمالی امریکہ اور کینیڈا بھی اس بارہ میں جانتا ہے۔ اور کئی امریکہ کے اخبارات نے ذکر کیا کہ یہ گرہن رمضان کے مہینہ اور انہی دنوں میں ہوئے۔ اور ہندوستان کے اخبارات میں بھی ذکر ہے کہ یہ گرہن رمضان کے مہینہ اور انہی دنوں میں ہوئے۔ اور یہ وہ نشان ہے جس کو اس زمانہ کے نام نہاد ملّاں اور علماء مانگ رہے تھے۔ جب یہ نشان پورا ہوا تو انہوں نے کہہ دیا کہ نہیں یہ نشان نہیں ہے۔ اور اس کو ماننے سے انکار کر دیا۔ تو یہ لوگ ضدّی لوگ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننا نہیں چاہتے اور بہانے کرتے ہیں۔جیسا کہ میں نے کہا کہ بہت سارے نشانات ہیں جو قرآنِ شریف میں موجود ہیں اور ان نشانات کی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے تشریح فرمائی ہے۔ آپ سورۃ تکویر کو پڑھیں تو آپ کو بہت سارے نشانات مل جائیں گے۔
…٭…ایک اور طالبِ علم نے سوال کیا کہ ہم دجال کو اپنی روز مرہ زندگی میں کس طرح پہچان سکتے ہیں ؟
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: سوال یہ ہے کہ دجال ہے کیا ؟دجل کا مطلب ہے دھوکہ یعنی جو چیز بھی آپ کو دھوکہ دے رہی ہے وہ دجالیت ہے اور اس زمانہ میں اور خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں عیسائیت نے غلط رنگ اختیار کر کے غلط طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدابنا کر پیش کیا اور پھر اس کوذرائع مواصلات استعمال کرکے پھیلایا۔
اسی دھوکا دہی سے اۡس وقت انڈیا میں بھی لاکھوں مسلمان عیسائی ہو رہے تھے۔ اس وجہ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تو فوت ہو گئے ، وہ زمین میں دفن ہیں ، عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں اس کا مطلب ہے کہ ان کا درجہ بڑا اونچا ہے۔ تو یہ ایک دھوکا تھا جو دیا جا رہا تھا۔ یہ بھی دجل تھا اوراۡس زمانہ میں اپنی انتہاء پر پہنچا ہوا تھا۔ اور آج کے زمانہ میں بھی دجالیت موجود ہے جب غلط رنگ میں مذہب کو بیان کیا جائے یا غلط رنگ میں کسی بھی چیز سے فائدہ اٹھایا جائے تویہ دجالیت ہی ہے۔گورنمنٹوں کے بعض پولیٹکل بیان ہی ہوتے ہیں جو غلط رنگ میں دئے جاتے ہیں۔ مثلًا اب میں جانتا ہوں یہی مغربی قومیں ہیں ، بعض حکومتیں ہیں جو ایک طرف تو کہتی ہیں کہ شدّت پسندی ختم کرو اور مسلمان سب شدّت پسند ہیں اور یہ ہے اور وہ ہے۔اور دوسری طرف یہی وہ لوگ ہیں جن میں سے بعض شدت پسندوں کو فنڈنگ بھی کرتے ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ: ایک انسانی حقوق کے کارکن سے، جو ایک ملک کے وزیر اعظم کا بڑا مشیر تھا، میری بات ہوئی تو اس سے میں نے کہا کہ تم لوگ ایک طرف تو کہتے ہوکہ دہشت گردی ہورہی ہے اور دوسری طرف ایک حکومت کی طرف سے ان دنوں پاکستان کو دینے کیلئے ساٹھ ملین ڈالر سعودی عرب کو دیئے گئے تھے۔ تو میں نے کہا یہ کس لئے بھیجے ہیں؟ تم لوگ کیا چاہتے ہو؟ تو کوئی مجھے جواب نہیں دے سکا۔ ہنس کے چپ کر گیا۔ تو یہ بھی دجل ہے۔ تو ہر چیز جہاں دھوکا چل رہا ہے دجل ہی ہے۔ تویہی دجال ہیں،اور ہمیں ان سے بچنا ہے اور اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنی ہے۔
…٭…ایک اور طالب علم نے سوال کیا کہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جنوری میں اپنے جمعہ کے خطبہ میں فرمایا تھا کہ وہ واقفینِ نو جو بزنس سٹدیز میں ہیں وہ اپنا وقف چھوڑ دیں، اس میں کیا حکمت ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:آپ بات صحیح طرح نہیں سمجھے۔اس خطبہ کو غور سے سنیں۔چھ سات مضامین میں نے بتائے تھے کہ یہ بڑے اہم مضامین ہیں کہ جن کی اس وقت جماعت کو ضرورت ہے۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم بزنس پڑھ رہے ہیں۔ جب ان سے پوچھو کہ کیا کرو گے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم اس کے بعد اپنا بزنس کریں گے یا میرے ماں باپ کا، فیملی کا بزنس ہے اس میں جائیں گے۔ تو ان کو میں نے کہا تھا کہ ایسے لوگوں کو تو چاہئے کہ اگر وہ اس نیت سے پڑھ رہے ہیں کہ اپنے فیملی بزنس میں جانا ہے یا اپنا بزنس کرنا ہے تو وہ پھر وقف چھوڑ دیں اور یہ اعلان کریں کہ ہم نے وقف توڑ دینا ہے۔ یہ نہ ہو کہ آخر وقت تک پڑھتے رہیں اور ہم سمجھیں کہ وقفِ زندگی ہے اور جو گریجوئیشن کر لے، ماسٹرز کر لے، کوالیفائی کر لے، اور جب وقت آئے کہ آؤ جماعت کی خدمت کرو تو کہہ دے السلام علیکم ، میں تو اپنا فیملی بزنس کر رہا ہوں۔ میں نے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ وقفِ نو کو ہر لیول پہ راہنمائی چاہئے۔ ایک منصوبہ ہونا چاہئے۔ اس منصوبہ کے لئے میں نے جماعتوں کو کہا تھا کہ اگلے تین چار مہینوں میں مجھے ایک منصوبہ بنا کر بھیجیں کہ آپ کے واقفینِ نو کتنے ہیں۔ ان میں سے کتنے ڈاکٹر بن سکتے ہیں ، کتنے ٹیچر بن سکتے ہیں، کتنے انجینئر بن سکتے ہیں اور کتنے انجینئرنگ کی مختلف برانچز میں جائیں گے؟ کتنے زبان دان بن سکتے ہیں اور کون کون سی زبانوں میں جا رہے ہیں؟ اور کتنے ماہرِ اقتصادیات بنیں گے یا بزنس پڑھیں گے یا اکاؤنٹنگ پڑھیں گے۔ اوراسی طرح مختلف علوم ہیں۔ پتہ نہیں کہ کینیڈا والوں نے ابھی تک بھیجاہے یانہیں؟ تو یہ سارا منصوبہ ہمارے سامنے ہو تو منصوبہ بندی کر سکتے ہیں کہ اگلے دس سالوں میں ہمیں کیا کیا چاہئے۔
اگر اس طرح haphazard کام ہو رہا ہو تو وقفِ نو کا کوئی جھنڈ تو ہم نے جمع نہیں کرنا۔ ہمیں تو ایسے لوگ چاہئیں جو جماعت کے کام آسکیں۔ اس لئے میں نے کہا تھا کہ ایک تو ہمیں پتہ ہونا چاہئے۔ جس کو پوچھو وہ کہتا ہے کہ میں گرافکس میں ماسٹرز کر رہا ہوں۔ میں بیچلر کر رہا ہوں یا اکاؤنٹنگ میں کر رہا ہوں۔ سارے گرافکس میں چلے جائیں گے تو ہمارے پاس تو MTA کے لئے اتنی ضرورت نہیں ہے کہ ہر ایک کو گرافکس میں لے لیں۔ اس لئے ہر موقع پر رہنمائی لیں۔ 15 سال کی عمر میں ، 18 سال کی عمر میں، اور یونیورسٹی ختم کرنے کے بعدبھی رہنمائی لیں۔ باقی اگر آپ فائنانس یا بزنس ایڈمنسٹریشن میں ہیں اور آپ کی نیت وقف کرنے کی ہے توپہلے پوچھیں کہ میں یہ پڑھ رہا ہوں اور مجھے آگے کیا کرنا چاہئے۔ پھر ہم آپ کی رہنمائی کریں گے کہ آپ کو کیا کرنا چاہئے۔ میں نے اس طرح نہیں کہا تھا کہ اگربزنس پڑھو گے تو گناہ ہو جائے گا اور تمہیں سزا مل جائے گی۔میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ترجمہ کرنے والے نے پتہ نہیں کیا ترجمہ کیا مگر خطبہ کے الفاظ یہ نہیں تھے۔ انگریزی میں خلاصہ نہ پڑھیں بلکہ تفصیل سے پڑھیں۔ آپ کو اردو آتی ہے تو تفصیل سے خطبہ سنیں۔ خطبہ انٹرنیٹ پر موجود ہے اور ہر وقت جو آپ iPad لے کر اِدھر اۡدھر دیکھتے رہتے ہیں ، تو اس خطبہ کوبھی سن لیں۔
…٭…ایک اور طالب علم نے سوال کیا کہ حضور خاکسار جامعہ میں جانا چاہتا ہے تو کیا تخصص کے بعد ہم کسی اور مضمون میں پڑھائی کر سکتے ہیں؟
حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: تم پہلے جامعہ جاؤپھر فیصلہ کریں گے کہ تمہیں تخصص کرانا ہے کہ نہیں کرانا۔تخصص کا فیصلہ تم نے خود نہیں کرنا۔ جب آپ جامعہ میں پڑھیں گے تو پتہ لگے کا کہ آپ کا کس چیز میں رجحان ہے اور اس کے مطابق پھر آپ کو تخصص اگر کرانا ہو گا تو جماعت کرائے گی۔ اگر جماعت سمجھے گی کہ آپ کو تخصص نہیں کروانا اور آپ کو فیلڈ میں بھیج دینا ہے کہ جائیں تبلیغ کریں ، بولیویا میں یا Trinidadمیں یا گوئٹے مالا میں یا برکینا فاسو میں یا مالی میں جہاں آج کل نائیجریاکے Bokoharam والے شدّت پسندمسلمان کام کر رہے ہیں وہاں جا کر تبلیغ کرنی ہے۔ آپ کو کہاں بھجوانا ہے یا کیا کرناہے اس کا فیصلہ ہم نے کرنا ہے، آپ نے نہیں کرنا۔ شاہد کی ڈگری کے بعدآپ کو جماعت بتائے گی کہ آپ میں اتنی استطاعت اور صلاحیت ہے کہ آپ نے تخصص کرنا ہے یا نہیں۔ تخصص میں تو چند ایک لئے جاتے ہیں۔ اگر اتنے بہترین طالب علم ہو جاؤگے تو پھراس وقت فیصلہ ہو جائے گا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہمارے بعض متخصصین ایسے بھی ہیں کہ انہیں تخصص کرا نے کے بعد انہیں یونیورسٹی سے ماسٹرز بھی کرایا ہے۔ انگلش میں بھی کرایا ہے۔ یہاں بھی ایک دو فرنچ میں کر رہے ہیں، پھر بائبل کے علم میں کر رہے ہیں۔ بعض دینی علوم میں تخصص کررہے ہیں اور بعض عربی زبان میں بھی کر رہے ہیں۔ اگر وہ اچھے، shining ، بہترین طالب علم ہوں توجامعہ کے لڑکوں کو آگے مزید یونیورسٹی میں بھی بھیجا جاتا ہے۔
…٭…اس کے بعد حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے استفسار فرمایا کہ مجھے یہ بتاؤآپ میں سے کتنوں نے جامعہ میں جانا ہے؟
چندایک ہاتھ کھڑے ہوئے۔ تو اس پر حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اتنے تھوڑے لڑکے اور وہ بھی چھوٹی عمر کے۔ ان میں بڑے تو ہیں نہیں۔ وہاں ابھی یوکے میں خدام الاحمدیہ نے تربیتی کلاس کی ہے تو وہاں GCSE کے چالیس لڑکوں نے جامعہ جانے کے لئے فارم بھی حاصل کئے ہیں۔ یہاں آپ لوگ نکّمے ہو ، ہاتھ ہی نہیں اٹھاتے۔
…٭…پھرایک طالبِ علم نے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص خلیفہ کے لئے منتخب ہو جائے تو اسے کیسے پتہ چلتا ہے کہ وہی خلیفہ ہے؟
اس سوال کے جواب میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا : جماعت میں ایک نظام ہے۔ ایک انتخابی کمیٹی ہے۔یہ انتخابی کمیٹی خلیفہ کی وفات کے بعد بیٹھتی ہے۔ اور پھر وہ نئے خلیفہ کو چنتی ہے۔ یہ ابھی تک اللہ تعالیٰ کا جماعت کے ساتھ سلوک ہے، اس طرح خدا تعالیٰ جماعت پر اپنا فضل کر رہا ہے کہ انتخابی کمیٹی کے دل میں خیال آتا ہے اور اس کی کئی مثالیں ہیں۔ جو انتخابی کمیٹی میں بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے اپنی باتیں بتائی ہیں کہ کس طرح ان کے دل میں خیال آیا کہ کس کو ووٹ دینا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ سے لے کر خلافتِ خامسہ کے الیکشن تک اللہ تعالیٰ کی ہی تائیدونصرت ساتھ چلی آرہی ہے۔ ان کے دلوں میں جب خیال آتا ہے تو یہی سوچا جاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈالا گیاہے۔ کیونکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے کچھ اور سوچا تھا کہ کسی اور کے حق میں رائے دیں گے یا ووٹ دیں گے۔ لیکن لگتا تھا کہ کوئی غیبی طاقت ہے جو زبردستی ہمارا ہاتھ اٹھا رہی ہے اور ہاتھ کو اٹھا کر کھڑا کر دیتی ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جہاں تک آپ کا یہ سوال ہے کہ جو انسان چن لیا جاتا ہے اس کو کس طرح پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ خلیفہ ہے؟ تو میرا تجربہ یہی ہے کہ پہلے 10 منٹ تو کچھ پتہ نہیں لگتا کہ کیا ہو گیا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ ایسی تسلی ڈالتا ہے اور ہر چیز پر سکون ہو جاتی ہے۔ اور پھر یہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ہے۔ جو میں کام کروں گا اس میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا۔ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ جماعتِ احمدیہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو سلوک ہے کہ جماعت مسلسل ترقی کر رہی ہے۔ پس اگر جماعت ترقی کر رہی ہے تو اسکا مطلب ہے کہ وہ شخص جو منصبِ خلافت پر فائز ہواہے وہ خدائی رہنمائی میں ہے۔
…٭…ایک اور طالب علم نے سوال کیا کہ جب بھی کوئی بڑی تباہی یا قدرتی آفت آتی ہے تو وہ اکثر غریب طبقہ پر آتی ہے تو اس میں کیا حکمت ہے؟اس کے جواب میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آفت جب آتی ہے تو غریب ممالک پر تو نہیں آتی۔امریکہ غریب ملک تو نہیں ہے جس پر اتنے طوفان آرہے ہیں؟ ہاں، جو امیر لوگ ہیں توپبلک ہی ہے جو ان کو امیر بنا رہی ہوتی ہے۔ کوئی انڈسٹری چل رہی ہے تو اس میں جو عام مزدور ہے وہی کام آ رہا ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے اگر میں نے دنیا کوایک دم میں تباہ کرنا ہوتا تو میں جانداروں میں سے کسی چیز کو نہ چھوڑتا۔ اس کا مطلب ہے کہ جو جاندار چیزیں ہیں، جانور وغیرہ ، پہلے ان کی تباہی آتی اورجب ان کی تباہی آتی تو انسان کی تباہی بھی آجاتی۔توغریب زیادہ متاثر اس لئے ہوتا ہے کہ علاقہ میں ان کے پاس اچھے مکان نہیں ہیں یا بعض slums میں رہنے والے ہیں۔ یا قحط ہے تو اس کیلئے توامیروں نے ذخیرہ کر لیا۔ لیکن امیر کتنے لوگ ہوتے ہیں؟ ایک تھوڑی سی آبادی ہوتی ہے جو اس لیول کی ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو بچا سکے۔ باقی کسی بھی قسم کی آفت سے یا قحط سے یا کوئی بھی مصیبت آتی ہے تو عام پبلک پہلے متاثر ہوتی ہے لیکن آخرکاردوسرے بھی اس سے متاثر ہو جاتے ہیں۔اس کا مختصرًا جواب یہی ہے۔
…٭…ایک اور طالب علم نے سوال کیا کہ میں کیتھولک اسکول میں جاتا ہوں اور اپنے اساتذہ کے ساتھ جب بات کرتا ہوں تو ان سے پوچھتا ہوں کہ وہ ایک خدا کو کیوں نہیں مانتے۔ تو وہ اس سوال سے بھاگتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ہمارے دل کو بڑا کیا ہے۔
اس پرحضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: وہ ایک خدا کو تو مانتے ہیں مگرکہتے ہیں کہ باپ اوربیٹا بھی ہے۔اور سب ایک ہی ہیں۔ تو ان سے کہو کہ اگرسب ایک ہی ہیں توپھر باپ کون ہے؟
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ان کو بتاؤکہ اللہ تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ اگر ایک خدا کی بجائے دو خدا ہوں اور ہر ایک خود مختار ہو تو پھر باپ بھی خود مختار ہوگا اور بیٹا بھی۔اور ہر ایک اپنی مرضی کرے گا جس سے سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ کۡل کائنات کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ اس لئے کوئی ایک طاقت ہونی چاہئے جو کنٹرول کر رہی ہو۔ اور وہ جوکنٹرول کرنے والی طاقت ہے وہی خدا ہے اور اسی کے تحت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔
اس کے بعد حضورِ انور نے ازراہِ شفقت طلباء میں تحائف تقسیم فرمائے اور واقفین سے مختلف امور کے بارے میں استفسار بھی فرماتے رہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں