نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر9)

(مطبوعہ رسالہ اسماعیل اکتوبر تا دسمبر 2014ء)

نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر9)
(کاوش: فرخ سلطان محمود)

سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفین نو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مختلف پہلوؤں سے اُن کی راہنمائی کا سلسلہ جاری فرمایا ہوا ہے۔ اس میں اجتماعات اور اجلاسات سے خطابات، پیغامات کے ذریعہ ہدایات، رسائل کا اجراء اور وقف نو کلاسوں کا انعقاد بھی شامل ہے۔ مستقبل کے احمدی نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ اُس وقت بھی جاری رہتا ہے جب حضور انور کسی ملک کے دورہ پر تشریف لے جاتے ہیں۔ وہاں کے واقفین نو بھی یہ سعادت حاصل کرتے ہیں کہ براہ راست حضور انور کی رہنمائی سے فیض حاصل کرسکیں۔ ان واقفین نو کو کلاسوں کے دوران حضورانور جن نہایت اہم نصائح سے نوازتے ہیں اور جو زرّیں ہدایات ارشاد فرماتے ہیں وہ دراصل دنیا بھر میں پھیلے ہوئے واقفین نو کے لئے بیش بہا رہنمائی کے خزانے رکھتی ہیں۔ حضور انور کی واقفین نو کے ساتھ کلاسوں میں سے ایسے چند حصے آئندہ صفحات میں پیش کئے جارہے ہیں جنہیں واقفین نو کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

واقفین نو جرمنی کے ساتھ کلاس
(19؍ جون بروز اتوار 2011ء بمقام بیت السبوح فرینکفرٹ)

اس کلاس میں جرمنی بھر کی جماعتوں سے اُن 240 واقفین نو نے شمولیت کی سعادت پائی جنہوں نے وکالت وقف نو کے جاری کردہ نصاب کے سالانہ امتحان میں جرمنی بھر میں بالترتیب 250 پوزیشنز حاصل کی تھیں۔
اس کلاس کا موضوع افریقہ تھا۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا ۔ آیات کریمہ کے اردو ترجمہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور اس کا اردو ترجمہ پیش کیا گیا۔ پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا منظوم کلام ’’احمدی اٹھ کہ وقت خدمت ہے‘‘ خوش الحانی سے پیش کیا گیا۔ بعد ازاں افریقہ کے دو ممالک بنین اور نائیجر کا تعارف پیش کیا گیا۔
بنین اور نائیجر کا تعارف
نائیجر (Niger) مغربی افریقہ کا ملک ہے۔ اس کے ہمسایہ ممالک میں نائیجیریا، بینن ، بورکینافاسو، الجیریا، لیبیا اور چاڈ شامل ہیں۔ نائیجر کا زیادہ تر علاقہ پہاڑوں اور صحرا پر مشتمل ہے۔ ’’صحرائے اعظم‘‘ کا کچھ حصہ نائیجر میں پایا جاتا ہے۔ نائیجر کا رقبہ بارہ لاکھ 70 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ اس کے مقابل پر جرمنی کا رقبہ تین لاکھ ستاون ہزار مربع کلومیٹر ہے یعنی چار دفعہ جرمنی نائیجر میں پورا آجاتا ہے۔ نائیجر کو کوئی سمندر نہیں لگتا۔
بنین (Benin) مغربی افریقہ کا ملک ہے جو کہ Gulf of Guinea پر واقع ہے۔ اس کے ہمسایہ ممالک میں ٹوگو، بورکینافاسو، نائیجر اور نائیجیریا شامل ہیں۔ بنین نسبتاً چھوٹا ملک ہے جس کا رقبہ ایک لاکھ 12 ہزار 600 مربع کلومیٹر ہے۔ جرمنی بنین کی نسبت تین گنا بڑا ہے۔ بنین کی آبادی 9.5 ملین ہے۔ دارالحکومت Porto-Novo ہے۔ لیکن حکومتی ادارے زیادہ تر ساحلی شہر Cotonou میں واقع ہے۔
اس کے بعد ان دونوں ممالک کی قوموں اور زبانوں کے متعلق ایک مضمون عزیزم برّاق مشتاق نے پیش کیا اور بتایا کہ نائیجر میں 52 فیصد Hausa قوم پائی جاتی ہے۔ جس کے بعد Djerma قوم آتی ہے جن کی تعداد 23 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ اور بہت سی اقوام بھی پائی جاتی ہیں۔ Hausa قوم کافی بڑی ہے جو مغربی اور وسطی افریقہ میں پائی جاتی ہے۔ اس قوم کی کُل تعداد 21 ملین ہے جبکہ نائیجر میں اس کی تعداد 6 ملین ہے۔
بنین میں تقریباً ساٹھ فیصد سے زائد قبیلے پائے جاتے ہیں اور تقریباً اتنی ہی زبانیں ہیں۔ آبادی کا ساٹھ فیصد EWE سے تعلق رکھتا ہے جس میں Fon, Atakora, Bariba اور Yoruba اقوام شامل ہیں۔ بنین کی دفتری زبان تو فرنچ ہے لیکن اس کے علاوہ بہت سی دوسری زبانیں بولی جاتی ہیں۔
ان ممالک میں خوراک کے حوالہ سے معلومات پیش کرتے ہوئے ایک سبزی Casava پیش کی گئی۔ تو اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ یہ تو Yaam ہے۔ Cassava پتلا ہوتا ہے۔ یہ Yaam بھی کھاتے ہیں۔ اس کو ابال کر، جس طرح تم Fish & Chips کھاتے ہو مرچوں کے ساتھ یا سالن کے ساتھ۔ اس طرح چپس تَل کے بھی کھاتے ہیں اور ابال کے بھی کھاتے ہیں۔ اور اس کو اچھی طرح پیس کے سخت سی چیز بناکے وہ بھی سالن کے ساتھ ملاکے کھاتے ہیں اور Cassava بھی اسی طرح بناتے ہیں۔ اس کو پیس کر، آٹا سا بناکے اس میں چینی ڈال کے اسے بھی کھاتے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا: یہ نہ سمجھیں کہ Cassava اور Yaam ۔ Backward علاقے کے لوگوں کی خوراک ہے۔ ساؤتھ انڈیا جو انڈیا کا ترقی یافتہ علاقہ ہے، ان کی خوراک بھی Cassava اور Yaam ہے جو وہ کھاتے ہیں۔ چاول، کساوا اور یَام وہاں بھی ہوتا ہے بلکہ اَور علاقوں میں بھی ہوتا ہے۔
اس کے بعد ان دونوں ممالک میں پائے جانے والے مذاہب کے بارے میں بتایا گیاکہ نائیجر میں زیادہ تر مسلمان پائے جاتے ہیں جن کی تعداد اندازاً 93 فیصد ہے۔ 6.6 فیصد لوگ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں اور 0.4 فیصد لوگ عیسائی ہیں۔
ملک بنین میں قریباً 42 فیصد عیسائی پائے جاتے ہیں جن میں بڑی تعداد کیتھولک عیسائیوں کی ہے۔ ان کے علاوہ تقریباً 28 فیصد مسلمان ہیں۔ باقی چالیس فیصد دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں جن میں Yoruba, Ga اور Vodoo شامل ہیں۔
Vodoo مذہب کی ایک بات یہ ہے کہ افریقہ میں بھی لوگوں کو جنّ چڑھتے ہیں یا ان کے اندر روحیں حلول کرجاتی ہیں۔ افریقہ میں ایسے شخص کو بہت مقدّس سمجھا جاتا ہے کہ اس کے اندر خدا کی روح آگئی ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ اس کے ذریعہ سے انسانوں کا خدا کے ساتھ ایک رابطہ قائم ہوگیا ہے۔
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ عربوں میں بھی جنّوں کا رواج ہے۔ ان میں بھی جنّ پڑ جاتے ہیں۔
اس کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا منظوم کلام ’’تیرے بندے اے خدا سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں‘‘ پڑھی گئی۔ جس پر حضور انور نے اظہار خوشنودی فرمایا اور فرمایا: اچھی پڑھ لی ہے۔ جس جوش سے پڑھنی چاہئے تھی اسی طرح پڑھی ہے۔ دونوں چیزیں ملاکے درد بھی اور جوش بھی۔
اس کے بعد بنین اور نائیجر میں جماعت کے تعارف پر مشتمل ایک مضمون پیش کیا گیا جس میں بتایا کہ بنین میں جماعت کا آغاز 1967ء میں ہوا جب مکرم Douda Sakiou صاحب بزنس کے سلسلہ میں نائیجریا گئے اور وہاں جماعت احمدیہ سے متعارف ہونے کے بعد جماعت میں داخل ہوگئے۔ اب ماشاء اللہ بنین میں 329 جماعتیں قائم ہیں۔ 187 مساجد ہیں جن میں سے 119 مساجد خود بنائی ہیں اور 68 مساجد تعمیر شدہ اماموں سمیت جماعت کو عطا ہوئی ہیں۔ اس وقت بنین میں پندرہ مبلغین خدمت بجالارہے ہیں اور اُن کے ساتھ ساتھ پانچ لوکل مشنریز بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آٹھ معلّمین بھی کام کررہے ہیں۔ اس وقت بنین میں واقفین نو کی تعداد ساٹھ (60) ہے۔
جیسا کہ جماعت احمدیہ دوسرے افریقن ممالک میں تعلیم اور صحت کے میدان میں بھی خدمات بجالارہی ہے۔ بنین میں جماعت احمدیہ کے دو سکولز ہیں۔ ایک ہسپتال، دو کلینکس، ایک ہومیوپیتھی ہسپتال اور ایک ڈسپنسری ہے۔
سرزمین بنین کو 2004ء میں یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ خلیفۂ وقت کے مبارک قدم اس سرزمین پر پڑے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جب 2004ء میں پہلی مرتبہ بنین تشریف لے گئے تو وہاں آپ نے مرکزی مسجد ’’المسجدالمہدی‘‘ کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس کے علاوہ Maraku میں ساٹھ بیڈ کے ہسپتال کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ اس وقت بنین کے صدر جنرل Mathieu Kerekou نے بھی حضور اقدس سے ملاقات کرنے کی سعادت حاصل کی۔
2008ء میں سرزمین بنین کو یہ سعادت دوبارہ حاصل ہوئی جب حضور اقدس تین روزہ دورے پر بنین تشریف لے گئے۔ آپ نے مرکزی مسجد اور ہسپتال کا افتتاح فرمایا۔ اور اس موقع پر اس وقت کے اور موجودہ صدر Dr. Boni Yayi نے حضور اقدس سے ملاقات کی سعادت پائی۔ اس کے علاوہ حضور نے بنین کے جلسہ سالانہ کے موقع پر خطاب بھی فرمایا۔
نائیجر میں جماعت 1976ء میں قائم ہوئی جب مکرم خالد عبداللہ صاحب نائیجیریا کے مبلغین کے ذریعہ جماعت احمدیہ سے متعارف ہونے کے بعد جماعت میں داخل ہوئے۔ 2000ء میں جماعت باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ ہوئی اور اب ماشاء اللہ نائیجر میں 84 جماعتیں قائم ہیں۔ 59 مساجد ہیں جن میں سے 19 مساجد خود بنائی ہیں اور چالیس مساجد تعمیر شدہ اماموں سمیت جماعت کو عطا ہوئی ہیں۔ اس وقت نائیجر میں چار مبلغین خدمت بجالارہے ہیں اور ان کے ساتھ ایک لوکل مشنری بھی شامل ہیں۔ اس وقت بنین میں واقفین نو کی تعداد دس ہے۔
2007ء سے ایک پرائمری سکول بھی قائم ہے جہاں اس وقت 65 طلباء تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
افریقہ کے غریب ممالک میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خصوصی ہدایات اور ارشادات کے تحت ’’ہیومینٹی فرسٹ انٹرنیشنل‘‘ کو غیرمعمولی خدمات کی توفیق مل رہی ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی ہدایت کے مطابق بنین اور نائیجر ’’ہیومینٹی فرسٹ جرمنی‘‘ کے سپرد کئے گئے ہیں جہاں اس وقت غریب عوام کی خدمت کے لئے درج ذیل پروگرام جاری ہیں۔
1۔ پینے کا پانی مہیا کرنا
2۔ٍ یتیم بچوں کی کفالت
3۔ آنکھوں کا علاج اور آپریشن
4۔ غریب، پسماندہ علاقوں میں میڈیکل کیمپس
5۔ تعلیم کے لئے سکولز اور نوجوانوں کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے لئے IT سینٹرز کا قیام۔
6۔ قدرتی آفات کے نتیجہ میں متأثرین کی فوری مدد۔
ہیومینٹی فرسٹ جرمنی کے تحت احمدی نوجوانوں کو ان دونوں ممالک میں خدمت کی جو توفیق مل رہی ہے، اُس کا ذکر کرتے ہوئے احمد اشرف بٹر صاحب نے بتایا:
1۔ Water for Life Project
نائیجر اور بنین کے بعض علاقوں میں پانی کی کافی کمی ہے۔ آج کے ترقی یافتہ دَور میں جہاں گھروں میں پائپ لائنوں کے ذریعے پانی پہنچ جاتا ہے اور ہم میں سے کئی تو شاید کافی کافی دیر شاور کے نیچے نہانے کے مزے لیتے رہتے ہیں۔ وہاں افریقہ کے بعض ممالک میں پانی کی اس قدر کمی ہے کہ میلوں دُور جاکر کسی چھپڑ نما جگہ سے صرف پینے کے لئے پانی لانا پڑتا ہے۔ ایسی جگہوں سے بھی پانی پیا جاتا ہے جہاں انسان اور جانور نہاتے بھی ہیں۔
اس مشکل کا ایک حل تو یہ ہے کہ جہاں ممکن ہے وہاں واٹر پمپس لگائے جائیں۔ لیکن جو کمپنیاں یہ کام کرسکتی ہیں وہ اتنا زیادہ پیسہ لیتی ہیں کہ غریبوں کے لئے ایک عام سا نلکا بھی ایک خواب بن کر رہ جاتا ہے۔ ایک ایک نلکے کے لئے تین تین ہزار یورو لیا جاتا ہے جو کہ بعض دفعہ پورے گاؤں کے لئے بھی دینا ناممکن بن جاتا ہے۔
خدا تعالیٰ کے فضل سے خلیفۂ وقت کی زیرہدایت ہیومینٹی فرسٹ اس پراجیکٹ پر کام کررہی ہے۔ ابھی گزشتہ سال ہی ہیومینٹی فرسٹ کو بنین میں پچاس پمپس اور اسی طرح نائیجر میں بھی پچیس جگہوں پر نلکے مرمّت کروانے کی توفیق ملی ہے۔ اور امسال بھی کئی جگہوں پر پمپس لگائے جارہے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جہاں دوسری کمپنیاں دو سے تین ہزا ریورو لیتی ہیں وہاں ہیومینٹی فرسٹ صرف چھ سو یورو میں پمپس لگاسکتی ہے۔ اور یہ بے لوث اور رضاکارانہ خدمت کے ذریعے ہی ممکن ہوا کرتا ہے۔ جہاں منافع کی پرواہ نہ ہو بلکہ صرف اور صرف انسانوں کی خدمت ہی پیش نظر ہو۔
2 ۔کفالت یتامیٰ پراجیکٹ (Orphen Care)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مَیں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ساتھ ساتھ ہوں گے جس طرح یہ دو انگلیاں ساتھ ساتھ ہیں۔ افریقہ میں بھی مختلف بیماریوں، حادثات یا جنگوں وغیرہ کی وجہ سے بہت سے والدین وفات پاجاتے ہیں اور اپنے پیچھے لاوارث بچے چھوڑ جاتے ہیں جن کا خیال رکھنے والا بعض اوقات کوئی بھی نہیں ہوتا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 2008ء میں ہیومینٹی فرسٹ جرمنی کو بنین میں پچاس یتیموں کا خیال رکھنے کی ہدایت فرمائی۔ امسال مزید پچاس بچوں کا اضافہ ہوا ہے۔ بلکہ اب تو بفضلہ تعالیٰ اس سکیم کے تحت بنین میں Porto novo میں ان یتیم بچوں کے لئے ایک بلڈنگ بنانے کا کام بھی شروع ہوچکا ہے جس کا نام حضور اقدس نے ازراہ شفقت ’’دارالاکرام‘‘ منظور فرمایا ہے۔ کنسٹرکشن شروع ہوچکی ہے اور انشاء اللہ 8 ماہ میں مکمل ہوجائے گا۔
ہاں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس نیک کام میں مدد کرسکتے ہیں اور وہ اس طرح کے ایک یتیم بچے کا ایک ماہ کا ہر طرح کا خرچہ جس میں تعلیم، صحت، کھانا اور دوسرے اخراجات شامل ہیں صرف 29 یورو ماہانہ ہے۔ اگر ہم چاہیں تو ایک بھائی کی اس طرح بھی مدد کرسکتے ہیں۔ اسی طرح ہیومینٹی فرسٹ کے ذریعہ جو ہر سال مختلف چیزوں کے پیکٹس افریقہ بھجوائے جاتے ہیں اس میں بھی ہم حصہ لے سکتے ہیں۔
3 ۔ Gift of Sight
دنیا بھر میں آنکھوں کی مختلف قسم کی بیماریوں کے باعث بہت سے لوگ تکلیف کا شکار رہتے ہیں لیکن کبھی ادویات اور کبھی آپریشن کے ساتھ ان تکالیف کو دُور کرلیا جاتا ہے۔ مگر جو غریب ان ادویات یا آپریشن کاخرچ نہ اٹھاسکیں ان کے لئے علاج کروانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ افریقہ میں بھی بہت سے لوگ غریب ہونے کی وجہ سے علاج نہیں کرواپاتے۔ ان کی ان تکالیف کو دُور کرنے کے لئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی زیر ہدایت ہیومینٹی فرسٹ جرمنی بھی بنین اور نائیجر میں خدمات بجالارہی ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ سال اس سلسلہ میں بنین میں سفید موتیا کے 100 اور نائیجر میں بھی 100 آپریشن کروانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اسی طرح بنین کے 26 مقامات پر آنکھوں کو چیک کرنے کے لئے فری آئی کیمپس لگائے گئے جہاں لوگوں کو چیک کرکے فری چشمے تقسیم کئے گئے۔ اور اب ایک مستقل آپٹیکل سنٹر Porto Novo بنین میں کھول دیا گیا ہے جہاں دس ہزار فرانک سے زائد کے فری چشمے تقسیم کئے گئے۔
4 ۔Medical Relief
اسی طرح دوسری بیماریوں کے علاج کے لئے میڈیکل کیمپس اور سرجری کیمپس بھی لگائے جاتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سکیم کے تحت یورپ کے احمدی اور غیراحمدی ماہرین اور بعض پروفیسر ڈاکٹرز بھی افریقہ جاکر فری میڈیکل کیمپس اور سرجری کیمپس میں شامل ہوتے ہیں جن میں جرمنی کے مشہور پروفیسر ڈاکٹر ہائن قابل ذکر ہیں جو تین بار بنین جاکر سرجریاں کرنے کی توفیق پاچکے ہیں۔
گزشتہ دو سالوں میں تیس سے زائد میڈیکل کیمپس لگائے جاچکے ہیں جن میں ڈیڑھ ہزار سے زائد مریضوں کا مفت علاج کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ تین بڑے سرجیکل کیمپس میں Viseral Surgery ہوئیں جن میں ہرنیا اور پراسٹیٹ کے آپریشن کئے گئے۔ اس کے علاوہ اس سکیم کے تحت جرمنی سے مختلف مشینیں اور دوسرے قیمتی آلات بنین کے احمدی اور دوسرے ہسپتالوں میں بطور عطیہ دیئے گئے۔ جن میں Dialise کرنے کی دس مشینیں بھی شامل تھیں۔ اب Cotonouبنین میں ایک ہسپتال بھی تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
5 ۔Learn Skill
تعلیم کو عام کرنے کے سلسلہ میں تو جماعت ہمیشہ سرفہرست رہی ہے۔ اور کئی ممالک میں جماعت احمدیہ نے سکولز کھولے ہیں۔ کچھ سکولز جماعت خود چلارہی ہے اور کچھ بناکر حکومت کو تحفۃً پیش کردیئے جاتے ہیں تاکہ علم کا نُور دُور دُور تک پھیل جائے۔ بنین، نائیجر اور ساؤتومے میں بھی ہیومینٹی فرسٹ کے ذریعہ تعلیم کو عام کرنے کی کوشش جاری ہے۔ مثلاً تینوں ممالک میں IT Centers کھولے گئے جہاں پر کمپیوٹر کے مختلف کورسز پر فری کلاسز کا مستقل نظام جاری ہے اور ان دو سالوں میں اب تک پانچ سو سے زائد طلباء مختلف کورسز کے ڈپلومے لے چکے ہیں۔
Porto Novo جہاں جماعت کا مرکزی مشن ہاؤس بھی ہے۔ اس کے پرائمری سکول میں مزید تین پکے کلاس روم تعمیر کروائے اور بینچ مہیا کئے گئے جس میں اب 120 سے زائد بچے باآسانی تعلیم حاصل کرسکیں گے۔ اور سکول کی ضروریات بھی پوری ہوگئی ہیں۔ (الحمدللہ)
ٰٰ6 ۔ Disaster Response
جماعت احمدیہ کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ جہاں بھی قدرتی آفات آتی ہیں جماعت اپنے وسائل کے مطابق خدمت انسانی میں آگے آگے ہوتی ہے۔ گزشتہ سال بنین میں جو سیلاب آیا اس میں بھی آفات میں گھرے ہوئے لوگوں کی مدد کی گئی جس میں 65 ٹن اناج لوگوں میں تقسیم کیا گیا اور 8 فری میڈیکل کیمپس لگانے کی بھی توفیق ملی۔ اسی طرح نائیجر میں قحط کے دوران 25 ٹن اناج اور 25 ہزار لوگوں کے لئے کپڑے مہیا کرنے کی توفیق ملی۔
حال ہی میں حکومت کی نمائندہ مادام گراس لوانی جو کہ صدر مملکت کی ایڈوائزر بھی رہی ہیں نے بھی میڈیا کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا ہے کہ ہیومینٹی فرسٹ کے کاموں پر اپنی طرف سے اور حکومت کی طرف سے بہت شکرگزار ہوں کہ یہ دُوردراز سے ہمارے ملک کے غریب عوام کے لئے اتنے اخراجات کرکے آتے ہیں اور مفت علاج حتیٰ کہ آپریشن بھی کرکے جاتے ہیں۔ ان کی تمام کامیابیوں کی اصل وجہ ان کے پیچھے ایک ایسا دماغ ہے جو خدا تعالیٰ کے نُور سے پُر ہے اور وہ ان کے خلیفۃالمسیح کا دماغ ہے جو انہیں ہر وقت مخلوق خدا کی ہمدردی پر ابھارتا رہتا ہے اور یہ لوگ کام کرتے ہیں۔ مَیں حضور اقدس خلیفۃالمسیح کا بھی خاص طور پر شکریہ ادا کرتی ہوں اور یہ امید بھی رکھتی ہوں کہ اپنے انہی جذبات کے ساتھ بلکہ اس سے بھی مزید بڑھ چڑھ کر خدمات بجالاتے رہیں گے اور یہ بھی درخواست کرتی ہوں کہ مجھے ہمیشہ ان کے ساتھ رکھے کیونکہ یہ تعداد میں تھوڑے لوگ ہیں لیکن بہت کام کرنے والے ہیں۔
آخر میں یہ معلومات پیش کرنے والوں نے حضور اقدس سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم اپنے وقف کا حق ادا کرنے والے ہوں اور جب اور جہاں حضور اقدس کا حکم ہو ہمیں وہاں بہترین خدمت کی توفیق ملے۔ آمین
اس کے بعد ایک گروپ نے خدمت افریقہ کے حوالہ سے درج ذیل ترانہ بہت عمدہ آواز میں پیش کیا۔

ہم عہد یہ کرتے ہیں آقا ، جب آپ ہمیں فرمائیں گے
ہم افریقہ کی خدمت کو ، سب اڑتے اڑتے جائیں گے
جو زخم لگائے مغرب نے ، وہ ہم جاکر سہلائیں گے
اور خدمت کیا ہوتی ہے یہ اب ، ہم وقف نو بتلائیں گے
ہم اپنے بلالی بھائیوں کو ، سینے سے جاکے لگائیں گے
ربّ نے چاہا تو پژمردہ چہرے اک دن مسکائیں گے
جب جان کا سودا ہم نے کیا، تو تن آسانی سوچنا کیا
ہم صحراؤں کو چھانیں گے ، ہم جنگلوں میں گھس جائیں گے
گر جان بھی ہم کو دینی پڑی ، ہم ہنس کر جان سے جائیں گے
رکھے گا زمانہ یاد ہمیں ، وہ نقشِ وفا بن جائیں گے

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ یہ کس نے لکھا ہے؟ نیشنل سیکرٹری صاحب وقف نو مکرم محمود احمد صاحب نے بتایا کہ انہوں نے لکھا ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ آپ شاعر بھی ہیں تھوڑے سے، شاعر لگ رہے ہیں۔

واقفین نو کو حضور انور کی نصائح اور ہدایات

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تمام واقفین کو اہم ہدایات فرمائیں۔
حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
’’یہ عہد صرف ترانے تک نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ دل کی آواز ہونی چاہئے۔ یہ نہیں کہ صرف منہ سے کہہ دیا اس کے بعد دوڑ گئے اس لئے ہر وقف نو جو ہے وہ یاد رکھے کہ چاہے وہ کسی بھی فیلڈ میں ہے اس نے اپنی تعلیم سے فارغ ہو کر اپنی خدمات کو پہلے جماعت کے لئے پیش کردینا ہے۔ جماعت اگر کہے گی، خلیفۂ وقت اگر کہے گا کہ تم لوگ جماعت کی خدمت کے لئے آ جائو تو اسی وقت فوراً آجائیں۔ اور اگرکہا جائے گا کہ دوسال بعد، چار سال بعد اپنی فیلڈ میں Experience لے کر آئو، تب آئیں ۔ پھر اگر کہا جائے کہ اپنا کام کرو پھر کرتے رہیں۔ لیکن یہ فیصلہ آپ نے خود نہیں کرنا بلکہ جماعت نے کرنا ہے، خلیفۂ وقت نے کرنا ہے اس لئے یہ یاد رکھیں ہمیشہ، نہیں تو یہ صرف ترانے جو ہیں، ایک وقتی جوش ابھارنے کے لئے ہی نہ ہوں یہ مستقل آپ کی زندگی کا حصہ ہوں اور ایک واقف نو کو ہمیشہ یہ یادرکھنا چاہئے۔ ہمیشہ میں نصیحت کرتا ہوں کہ اس کا معیار نیکی کا دوسروں سے بلند ہونا چاہئے۔ نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ ہونی چاہئے۔ پانچ وقت نمازیں فرض ہیں لیکن مجھے پتہ ہے کہ بعض واقفین نو ایسے ہیں جو پانچ وقت نماز بھی نہیں پڑھتے۔ کوئی تین پڑھ ہوتا ہے کوئی چار پڑھ رہا ہوتا ہے اور بہانے ہو جاتے ہیں۔ یہ سب نفس کے بہانے ہیں ان کو دور کریں اور اس طرح باقی اخلاق جو ہیں وہ آپ کے بہت زیادہ اعلیٰ ہونے چاہئیں۔ دوسروں کی نسبت، سچائی آپ کا طرۂ امتیاز ہو آپ کا خاص نشان ہو۔ کبھی کسی بھی معاملہ میں جھوٹ نہیں بولنا چاہئے۔ پھر برداشت ہے۔ برداشت آج کل بہت کم ہوتی چلی جا رہی ہے دنیا میں۔ اور صبر ہے یہ بھی آپ میںپیدا ہونا چاہئے تبھی آپ حقیقت میں فیلڈ میں جا کر اپنی خدمات کا صحیح استعمال کر سکتے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق دے‘‘۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: کوئی بات پوچھنی ہے تو پوچھ لیں۔
…٭… ایک طالبعلم نے پوچھا کہ وہ میڈیسن میں داخلہ لینا چاہتا ہے تو حضور انور نے فرمایا: میڈیسن میں داخلہ مل جاتا ہے تو لے لیں۔ اللہ کرے مل جائے۔ ڈاکٹر تو جتنے بن جائیں اتنے کم ہیں۔ جس طرح ہمیں مبلغین کی ضرورت ہے اسی طرح ڈاکٹرز اور ٹیچرز کی زیادہ ضرورت ہے اور باقی فیلڈز میں بھی اسی طرح ہے۔
ظ ایک واقف نو نے سوال کیا کہ دسویں کلاس کے بعد جامعہ میں آنا چاہے یا Abitur (ایف ایس سی) کے بعد۔ تو اس پر حضور انور نے دریافت فرمایا جامعہ والوں کا کیا خیال ہے۔ حضور انور کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ جو لائق لڑکے ہوں انہیں Abitur کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ حضور انور نے طالبعلم کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: کرسکتے ہو تو Abiturکرلو۔ بڑی اچھی بات ہے۔ ذرا experience ہوجائے گا۔ تھوڑے اَور میچور ہوجاؤگے۔
جامعہ میں داخلہ کے لئے تین طلباء نے دعا کی درخواست کی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’اللہ فضل کرے، اگر اس قابل ہوگے تو انشاء اللہ سلیکٹ ہوجاؤگے۔ اگر نیت نیک ہے۔ کافی لوگوں نے درخواست دی ہے اگر زیادہ ہوئے تو UK لے جائیں گے۔
…٭… ایک واقف نو نے اپنے شہر Gieben میں مسجد کی جگہ مل جانے کے لئے دعا کی درخواست کی۔ حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فضل فرمائے، جگہ مل جائے۔
…٭… ایک واقف نو نے بتایا کہ اُسے زبانوں میں دلچسپی ہے تو حضور انور نے دریافت فرمایا: کس زبان میں دلچسپی ہے۔ طالبعلم نے بتایا فرنچ اور انگریزی میں۔ حضور انور نے فرمایا: جرمن اچھی آتی ہے تو پھر انگلش میں کرلو۔ اگر انگلش میں دلچسپی ہے۔
…٭… ایک واقف نو نے بتایا کہ اُس نے Abitur (ایف ایس سی) کیا ہے اور اسے دلچسپی آسٹرونومی اور فزکس میں ہے۔ حضور انور نے فرمایا فزکس والوں کو ہی آسٹرونومی میں داخلہ دیتے ہیں۔ ٹھیک ہے اگر دلچسپی ہے تو کرلو لیکن آسٹرونومی کرکے پھر آگے ماسٹرز بھی کرنا ہے۔ آگے پڑھنا ہے پھر۔ صرف ڈگری لے کے بیٹھ نہ جانا۔
…٭… ایک واقف نو نے بتایا کہ وہ اکنامکس کا Thesis لکھ رہا ہے جس کا موضوع ہے:
“The Proposed Free Trade Agreement between India and EU”
اس پر حضور انور نے فرمایا: انڈیا تو نئی Emerging Economy ہے۔ وہ تو کھا جائے گی کچھ سالوں میں یورپ کو۔ فرمایا: ٹھیک ہے کریں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں