نہیں دل کی لگن بھی تیرے در تک مجھ کو پہنچاتی – نظم

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30جنوری 2012ء میں محترمہ صاحبزادی امۃالقدوس صاحبہ کی ایک طویل نظم بعنوان ’’مرا بھی نام آجائے‘‘ شائع ہوئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں :

نہیں دل کی لگن بھی تیرے در تک مجھ کو پہنچاتی
کہ مَیں دنیا کے دھندوں سے نکلنے ہی نہیں پاتی
مری سُستی بھی ہے کچھ راستے کی روک بن جاتی
کسک ہے دل میں صدیوں کی نہیں یہ درد لمحاتی
مجھے بھی کاش تیری ذات کا ادراک ہو جاتا
ترے پیاروں کی صورت میرا دل بھی پاک ہو جاتا

رضا تیری جو چاہوں تو مرے اعمال ہنستے ہیں
ہر اک حرفِ دعا پہ میرے وہ آوازہ کستے ہیں
جمع پونجی ہے جو بھی میری اس کے نرخ سستے ہیں
بہت ہی دُور منزل ہے بہت پیچیدہ رستے ہیں
مرا احساسِ محرومی بھی میرے کام آ جائے
ترے بندوں کے زُمرے میں مرا بھی نام آ جائے

حیات رائیگاں کی خوں رلاتی ہیں مجھے یادیں
’’ہوا میں اُڑ گئے نالے گئیں بیکار فریادیں ‘‘
کبھی تو چہرہ دکھلا دیں کبھی تو دید کروا دیں
کبھی تو کان میں رس گھول کر تسکین فرما دیں
مری سب خامیوں کے ساتھ مجھ میں اک وفا بھی ہے
بہت پختہ یقیں ہے یہ کہ میرا اِک خدا بھی ہے

سناتے ہیں ہمیں خوش بخت وصل یار کی باتیں
کبھی گفتار کے قصے کبھی دیدار کی باتیں
کبھی مَے کی ، کبھی میخانہ دلدار کی باتیں
کبھی انکار کی ، اصرار کی ، اقرار کی باتیں
محبت کی، ادا و ناز کی ، تکرار کی باتیں
شب مہتاب کی باتیں گل و گلزار کی باتیں

اپنا تبصرہ بھیجیں