وہ جو دل میں رہتی ہیں
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 8؍جولائی 2024ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں شامل اشاعت اپنے مضمون میں مکرمہ امۃالشافی شائستہ صاحبہ نے اپنے ذاتی مشاہدات کے حوالے سے حضرت سیّدہ چھوٹی آپا کی سیرت پر روشنی ڈالی ہے۔
3؍نومبر 1999ء کو حضرت چھوٹی آپا کی وفات ہوئی۔ آپ نماز، روزہ اور تہجد کی انتہائی پابند تھیں۔ نماز کا وقت ہوتے ہی ادائیگی کے لیے فورا ًاٹھ جاتیں۔ رمضان المبارک میں کثرت سے نوافل ادا کرتیں، تراویح پڑھتیں اور اعتکاف بیٹھتیں۔ نوافل بڑے خشوع اور خضوع سے ادا کرتیں۔ سخی تو ویسے بھی بہت تھیں مگر رمضان میں سخاوت انتہا کو پہنچ جاتی۔ یوں خدا کی راہ میں دیتیں کہ دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔ افطاریاں بھی کرواتیں۔
آپ کو قرآن مجید سے بےانتہا محبت تھی۔ بہت شوق اور دلجمعی سے قرآن مجید پڑھتیں اور پڑھاتیں۔ رمضان میں درس کا اہتمام ضرور کرتیں۔ درس قرآن مجید میں باقاعدگی سے شامل ہوتیں اور نوٹس لیتیں۔ اپنے قرآن مجید میں خالی صفحات اسی غرض سے لگواتیں۔ خصوصاًرمضان میں بہت زیادہ قرآن مجید پڑھتیں۔ کبھی ان سے پوچھا جاتا کہ آپ کتنی دفعہ قرآن مجید مکمل کرتی ہیں؟ تو فرماتیں: ’’یہ میرا اور میرے اللہ کا معاملہ ہے‘‘ پھر جب مَیں بہت اصرار کرتی تو بتاتیں کہ چھ، سات دفعہ مکمل کرلیتی ہوں، کبھی زیادہ بھی ہوجاتا ہے۔
بےشمار طالبات صبح و شام آپ کے پاس قرآن پڑھنے آتیں۔ بارہا یہ شعر بڑے پیار سے پڑھتیں ؎
دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں ، کعبہ مرا یہی ہے
آپ کی مہمان نوازی مثالی تھی۔ مَیں وقت بےوقت آپ کے ہاں جاتی۔ میں آپ کے قدموں میں بیٹھنا باعث فخر سمجھتی مگر آپ ہمیشہ مجھے کہتیں: اٹھو صوفے پر بیٹھ جاؤ۔ پھر مٹھائی یا مشروب سے تواضع کرتیں۔ کبھی اَور خواتین بھی ملاقات کے لیے آجاتیں۔ آپ مطالعہ کررہی ہوتیں، کچھ لکھ رہی ہوتیں یا ٹی وی دیکھ رہی ہوتیں تو اپنے آرام پر ان کی باتوں اور ان کے دکھوں کو ترجیح دیتیں۔ اپنی دعاؤں اور مشوروں سے سب کی مشکلات اور تکالیف کے ازالہ کی کوشش کرتیں۔ مہمانوں کے لیے بہترین کھانے اور رہائش کا انتظام ہوتا تھا۔ خصوصاً جلسہ سالانہ کے دنوں میں تو آپ کی ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی تھیں۔ کئی دفعہ ساری ساری رات انتظامات کی چیکنگ میں گزر جاتی لیکن جب تک تمام بیرکس، خیمہ جات اور جگہوں کا معائنہ کرکے، سب سے ان کی خیریت دریافت کر کے تسلّی نہ ہو جاتی۔ آرام سے نہ بیٹھتیں۔
آپ ہر کسی کی دعوت قبول کرتیں اور ضرور جاتیں۔ طبیعت میں انکساری کی وجہ سے سب کی خوشی اور غمی میں شریک ہوتیں۔ میرے والد مکرم خوشی محمد صاحب حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے باڈی گارڈ تھے۔ جب اُن کی وفات ہوئی تو آپ ملک سے باہر گئی ہوئی تھیں۔ واپس آئیں تو اس عاجزہ کے گھر تشریف لاکر انتہائی شفقت کے انداز میں میری غمگساری کی۔
میں بچپن میں بھی چھوٹی آپا کے پاس اکثر جایا کرتی تھی۔ اس وقت بھی آپ مجھ سے بہت پیار کرتیں اور کھانے پینے کی چیزیں دیتیں۔ کبھی آپ کے ہاں حضورؓ کی باری ہوتی تو مجھے کئی دفعہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ سے ملاقات کا اعزاز بھی حاصل ہوجاتا۔ چھوٹی آپا حضورؓ کے سرہانے کے دائیں طرف بیٹھتیں۔ حضورؓ کے چہرے پر بڑا نور ہوتا تھا۔ آپؓ دست شفقت میرے سر پر پھیرتے۔ حضورؓ کی یادداشت کمال کی تھی۔ کسی ایک فرد کا نام لیتے ہی پورے گھر والوں کے نام بتا دیتے۔
حضرت چھوٹی آپا دینی علوم سے بہرہ ور تھیں۔ ساتھ ہی دنیاوی علوم میں بھی ایم اے عربی تھیں۔ بہت سے علوم پر دسترس تھی۔ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی، اردو، حساب، منطق، جغرافیہ اور انگلش میں بھی مہارت حاصل تھی۔ غزلوں کی تشریح ہو یا کوئی اَور مسئلہ، باتوں باتوں میں حل کرکے سب کو مطمئن کر دیتی تھیں۔ بہت آسان لفظوں میں مشکل سے مشکل بات بھی سمجھا دیتی تھیں۔ امتحان کے دنوں میں مَیں اپنا پین لے کے جاتی تو آپ اس پر دعائیں پڑھنے کے بعد مجھے واپس کرتیں اور پھر میری طرف دیکھ کے مسکرا کر فرماتیں: ’’اللہ فضل کرے گا مَیں دعا کروں گی۔‘‘واپسی پر میں آپ کو بتاتی کہ پرچہ اچھا ہو گیا ہے تو بہت خوش ہوتیں۔
چھوٹی آپا سلائی کڑھائی، سینے پرونے اور کھانے پکانے کی ماہر تھیں۔اپنے ہاتھ سے کام کرنے کو اچھا سمجھتی تھیں۔
آپ میں انتہا کی سادگی تھی۔ دوسروں کو اچھے سے اچھا کھلاتیں اور خود ناشتے میں ایک توس اور ایک کپ پھیکی چائے لیتیں۔ اپنے لیے گاڑی نہیں خریدی۔ پیدل ہی جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے آیا جایا کرتی تھیں۔ نماز میں اکثرمَیں آپ کے ساتھ بیٹھتی اور جمعہ کے لیے کبھی آپ کو لینے اور کبھی جمعہ کی نماز کے بعد آپ کو چھوڑنے آپ کے گھر تک جاتی۔آپ فرماتیں: تکلّف نہ کرو، مَیں اکیلے چلی جاؤں گی۔ مگر مَیں اصرار کرتی کہ مَیں آپ کو گھر تک چھوڑ کے آؤں گی تو مسکرانے لگتیں۔
آپ نے کبھی ملازمین کو نہیں ڈانٹا، سب سے شفقت سے پیش آتیں۔ کاپی پر پہلے سے سودا لکھا ہوتا تاکہ لانے والے کو دقّت نہ ہو۔اگر ملازم مرد ہوتا تو پردے کے پیچھے سے کاپی اور حساب لیتیں۔ ایک دفعہ آپ کی کچھ اشیاء گم ہو گئیں تو مَیں نے بےخیالی میں کہا کہ جس کی چیز گُم جاتی ہے اس کا ایمان بھی ساتھ ہی چلا جاتا ہے۔ اس پر فوراً فرمانے لگیں: چیزیں بےشک ساری چلی جائیں لیکن خدا کرے ایمان کبھی کسی کا نہ جائے۔
آپ کے دفتر اور گھر میں بےشمار خطوط آتے تھے۔ کبھی کسی لمحے فارغ نہ بیٹھتیں۔ بروقت دفتر جاتیں اور ڈاک دیکھتیں۔ ہر کسی کے خط کا جواب دیتی تھیں۔ آپ کے ہاتھ میں بہت تیزی اور روانی تھی۔ قلم بہت تیزی سے چلتا۔ کئی دفعہ جب میں آپ کے پاس گئی تو حسب معمول بےشمارڈاک ہوتی۔ میرے کہنے کے باوجود مجھ سے خط نہ لکھواتی تھیں بلکہ یہی کوشش ہوتی کہ ہر خط کا جواب اپنے ہاتھ سے لکھیں۔ لکھائی بہت خوبصورت تھی ایسے جیسے موتی بکھرے ہوئے ہوں۔جب میں بہت زیادہ اصرار کرتی کہ مجھ سے بھی کچھ کام کروائیں تو کبھی کبھار مجھے خطوط دے کر کہتیں: اچھا! پھران لفافوں پہ گوند لگاکر بند کردو اور پوسٹ کر دینا۔ مَیں خود بھی جب ربوہ سے باہر ہوتی تو باقاعدگی سے آپ کی خدمت میں خط لکھا کرتی اور مجھے میرے ہر خط کا جواب بہت شفقت بھرے اندازمیں پوسٹ کارڈ یا لفافے میں ملتا جس میں ڈھیروں دعائیں ہوتیں۔
ویسے توآپ کو تمام کھیلوں میں ہی دلچسپی تھی مگر کرکٹ زیادہ پسند کرتی تھیں۔ جب پاکستانی ٹیم کا میچ ہوتا آپ ان کی جیت کے لیے دعا کرتیں اور ان کے جیتنے پر بہت خوش ہوتیں۔
عیدالاضحی پر مجھے گوشت اور گرمیوں میں آم بھجواتیں۔ جب میں نے بی اے کیا تو آپ نے مجھے نیوی بلیو جرسی انعام کے طور پر دی۔ پھر مَیں ایم اے کرنا چاہ رہی تھی مگر آپ نے مشورہ دیا کہ پہلے مَیں بی ایڈ کروں اور بعد میں پرائیویٹ طور پر ایم اے کرلوں۔ مَیں نے ان کے کہنے پر حامی تو بھرلی مگر سوچ میں پڑ گئی کہ بی ایڈ کے اخراجات کہاں سے پورے کروں گی؟ پھر یہ بھی کہ نہ میں کبھی فیصل آباد گئی تھی اور نہ کبھی باہر کسی ہوسٹل میں رہی تھی۔ آپ نے میری پریشانی کو بھانپ لیا اور بِن مانگے مجھے دو ہزار روپے عنایت کر دیے یہ فرماتے ہوئے کہ ’’یہ لجنہ اماءاللہ کی طرف سے تم پر قرض ہے۔ جس وقت تمہاری سروس شروع ہو جائے تو تھوڑے تھوڑے کرکے لَوٹا دینا۔‘‘ میرا چہرہ خوشی سے کھل گیا۔ پھر مجھے دوسری فکر لاحق ہوئی کہ انجانے شہر میں پہلی دفعہ جانا ہے۔ میری یہ مشکل بھی میری اس ’ماں‘ نے بِنا کہے یوں حل کردی کہ پرنسپل کالج آف ایجوکیشن کے نام میرا تعارفی خط لکھا کہ یہ میری بیٹی آرہی ہے اس کا خیال رکھیں۔ جب مَیں نے وہ خط پرنسپل صاحب کو دیا تو انہوں نے میرے ساتھ بہت شفقت کا سلوک کیا۔ چھوٹی آپا کے دو ہزار روپے اللہ کے فضل سے بہت بابرکت ثابت ہوئے اور میرا داخلہ، کتابیں، ہاسٹل کے اخراجات، فیس وغیرہ سب ادا ہوگئیں۔ پرنسپل صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ نے میرا بہت خیال رکھا اور وہ آج بھی میرے لیے بہت قابلِ احترام ہیں۔اس کے بعد تو میرے لیے خوش نصیبی کے در کھلتے چلے گئے۔
مَیں نے کئی دفعہ خواب دیکھا کہ مَیں چھوٹی آپا کا انٹرویو کررہی ہوں۔ مَیں نے بہت دفعہ ان سے اس خواہش کا اظہار کیا۔ مگر آپ نے ہمیشہ یہ کہہ کر ٹال دیا کہ مَیں تو ایک عاجز اور معمولی انسان ہوں میرا انٹرویو لے کر کیا کرو گی!۔
وفات سے قبل جب آپ شدید بیمار ہوئیں تو میری آپ سے آخری ملاقات ہوئی۔ آپ بڑے وقار سے اپنے پلنگ پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ پھر میرا بازو پکڑے برآمدے میں سے ہوتے ہوئے صحن میں آگئیں۔ پھرمیرے ساتھ اندر کمرے میں چلی گئیں۔ اس کے بعد مَیں نم آنکھوں سے ان کو اللہ حافظ کہہ کر گھر آگئی۔ چند دنوں بعد آپ کی وفات کی روح فرسا خبر ملی تو یوں لگا جیسے میری ٹانگیں جواب دے گئی ہوں۔ مَیں آپ کے گھر پہنچی، تین دفعہ آپ کا دیدار کیا۔ آپ کے چہرے پر انوار کی بارش تھی۔ اسی شام کے دھندلکوں میں آپ بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئیں۔ یہ میرا ان کے گھر میں آخری دن تھا۔ اس کے بعد مَیں ان کے گھرنہیں جاسکی۔
آپ کی وفات کے بعد مَیں نے بارہا آپ کو خوابوں میں دیکھا ہے۔آپ نے مجھ سے باتیں کیں اور محبت کی نظریں مجھ پر ڈالیں اور کئی دفعہ آپ نے مجھے خواب میں کہا کہ مجھے امید ہے تم میرے مشن کو مکمل کرو گی۔ اور کبھی یوں بھی کہا کہ تمہارے سپرد ایک کام کرنا چاہتی ہوں کیا تم اسے مکمل کروگی؟ مگر انہوں نے مجھے کام نہیں بتایا لیکن چونکہ آپ کو قرآن مجید سے بےانتہا محبت تھی اس لیے میرے خیال میں ان کی زندگی کا مشن قرآن مجید اور اس کا ترجمہ پڑھانا تھا۔ اس لیے مَیں نے یہ وعدہ کیا ہوا ہے کہ انشاءاللہ مَیں آپ کے اس مشن کو ہمیشہ زندہ رکھوں گی۔