وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا……
1953ء کا سال وہ تھا جب قیام پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ شر پسند مُلّاؤں کی فتنہ فساد کی بھڑکائی ہوئی آگ کے باعث ملک میں پہلی مرتبہ مارشل لاء کا نفاذ ہوا۔ دراصل فسادات بھی حکومت ہی کے بعض اعلیٰ اور ذمہ دار افراد کے ایماء پر ان کی ذاتی اغراض پورا کرنے کے لئے شروع کئے گئے تھے۔ اُس وقت پنجاب بھر میں احمدیوں کی جائیدادوں کو لوٹا جا رہا تھا اور انہیں شہید کیا جا رہا تھا۔ جب بظاہر یہ نظر آتا تھا کہ کم از کم لاہور میں تو شائد کوئی احمدی بھی زندہ نہیں بچے گا، ایسے میں حضرت مصلح موعودؓ نے ربوہ سے ایک پُرجلال اعلان فرمایا جو اخبار ’’فاروق‘‘ لاہور میں 4؍مارچ 1953ء کو شائع ہوا۔ حضورؓ نے فرمایا:۔
’’انشاء اللہ فتح ہماری ہوگی۔ کیا آپ نے گزشتہ چالیس سال میں کبھی دیکھا کہ خدا نے مجھے چھوڑ دیا؟ تو کیا اب وہ مجھے چھوڑ دے گا؟ ساری دنیا مجھے چھوڑ دے مگر وہ انشاء اللہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا۔ سمجھ لو! کہ وہ میری مدد کو آ رہا ہے وہ میرے پاس ہے اور مجھ میں ہے۔ خطرات ہیں اور بہت ہیں مگر اس کی مدد سے سب دور ہو جائیں گے‘‘۔
حضورؓ کی اس پیشگوئی کو ابھی چند دن بھی نہ گزرے تھے کہ 6؍مارچ 1953ء کو لاہور میں مارشل لاء نافذ ہوگیا اور معاندین احمدیت کے منصوبے خاکستر ہوگئے اور وہ گرفتاریوں سے بچنے کے لئے جگہ جگہ چھپنے لگے۔ یوں حضرت مصلح موعودؓ کا یہ اعلان جو الٰہی تصرّف سے آپؓ کی زبان پر جاری ہوا تھا لفظ بلفظ پورا ہوا۔
ان دنوں روزنامہ ’’الفضل‘‘ محترم شیخ روشن دین تنویر صاحب کی ادارت میں لاہور سے شائع ہوتا تھا اور مکرم شیخ خورشید احمد صاحب نائب مدیر تھے جن کے قلم سے حضرت مصلح موعودؓ کی یاد میں ایک واقعہ ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا فروری 1998ء کی زینت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ مارشل لاء کے نفاذ کے چند ہی دن بعد حضرت مصلح موعودؓ نے ’’الفضل‘‘ کے ایک اداریے پر شدید ناراضگی کا اظہار فرماتے ہوئے الفضل کے سارے سٹاف کو معطل کرکے اگلی صبح سے پہلے پہلے ربوہ پہنچنے کا حکم دیا۔ ہم استغفار کرتے ہوئے ربوہ جانے کی تیاری کرنے لگے۔ مارشل لاء کے نفاذ کے بعد لاہور سے باہر جانے کے تمام راستے بند تھے چنانچہ اجازت نامے حاصل کئے گئے اور رات کی ٹرین میں سوار ہوکر صبح ربوہ پہنچ گئے۔
جب حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورؓ نے ناراضگی سے پوچھا: ’’تنویر صاحب! آپ نے اتنا سخت مضمون کیوں لکھا؟ کیا آپ کو اور آپ کے عملہ کو علم نہیں کہ جماعت کی پالیسی کیا ہے؟ اس کی وجہ سے اگر جماعت کو کوئی نقصان پہنچا تو کون ذمہ دار ہوگا؟‘‘
تنویر صاحب نے سب کی طرف سے معافی چاہی اور کچھ دیر بعد ڈرتے ڈرتے یہ بھی عرض کیا کہ مخالفین تو دن رات حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احمدیت کے متعلق اتنی بدزبانی کرتے ہیں کہ ہمارا خون کھولنے لگتا ہے، اسی حالت میں میری قلم سے کچھ سخت الفاظ نکل گئے اور میں صدق دل سے معافی کی درخواست کرتا ہوں۔
یہ سن کر حضورؓ کے چہرہ پر ہلکا سا تبسم ظاہر ہوا اور حضورؓ نے فرمایا خیر جو غلطی آپ سے ہوگئی وہ تو ہوگئی، آئندہ اپنے غصے کو قابو میں رکھا کریں- …..
پھر فرمایا: میری اطلاع کے مطابق آپ لوگوں کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے تھے، اگر میں آپ کو معطل نہ کرتا اور فوری طور پر ربوہ پہنچنے کا حکم نہ دیتا تو آپ اس وقت حوالات میں پہنچ چکے ہوتے۔ اطلاع یہ ہے کہ حکومت پنجاب اخبار ’’زمیندار‘‘ کو بند کر رہی ہے اور اپنے خیال میں توازن برقرار رکھنے کی خاطر ’’الفضل‘‘ کی اشاعت پر بھی پابندی عائد کر رہی ہے۔ اس لئے آپ لوگ جلد کراچی روانہ ہو جائیں اور وہاں جاکر پندرہ روزہ ’’المصلح‘‘ کو سنبھال لیں اور اس کو روزنامہ بنانے کی اجازت لیں تاکہ احمدی جماعتوں سے ہمارا رابطہ قائم رہے۔
حضورؓ کے ارشاد نے ہماری آنکھیں کھول دیں اورہمارے قلوب روحانی لذّت محسوس کرتے ہوئے اس یقین سے بھر گئے کہ واقعی پیشگوئی مصلح موعود کے عین مطابق ’’خدا کا سایہ‘‘ حضورؓ کے سرپر ہے۔