پاکستان کی تخلیق کا ایک اہم مرحلہ

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل، 24؍مارچ، یوم پاکستان 2025ء)

حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ

پاکستان کی تخلیق کے حوالے سے حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی ایک گرانقدر خدمت کا تذکرہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍جنوری2014ء میں مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب کے ایک مضمون میں کیا گیا ہے۔ یہ مضمون دراصل ڈاکٹر اشتیاق احمد صاحب کے ایک مضمون پر تبصرہ ہے جو Splitting India کے عنوان سے اخبار ’’فرائیڈے ٹائمز‘‘ 18؍اکتوبر2013ء میں شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں یہ افسانوی مفروضہ پیش کیا گیا تھا کہ چودھری صاحبؓ نے قرارداد پاکستان کی تشکیل میں جو کردار ادا کیا تھا اسے ادا کرنے کے لیے انہیں وائسرائے یا کسی اَور برطانوی ایجنسی نے اشارہ کیا ہوگا کیونکہ وہ وائسرائے کی انتظامی کونسل کے ممبر تھے اور یہ حیثیت انہیں اس بات سے روکتی تھی کہ وہ ایسی بات کہیں جس سے برطانوی مفادات کو نقصان پہنچتا ہو۔

تاریخی حقیقت یہ ہے کہ حضرت چودھری صاحب نے وائسرائے کو ایک میمورنڈم لکھ کر بھجوایا تھا جس میں آزادی کے وقت برصغیر کی تقسیم کی قریباً وہی تجاویز پیش کی گئی تھیں جن کا اعلان بعدازاں لاہور کے جلسے میں پیش کی جانے والی قرارداد پاکستان میں کیا گیا تھا۔ حضرت چودھری صاحبؓ نے اپنی زندگی میں کبھی اس عظیم الشان خدمت کی تشہیر نہیں کی اور شاید اس کی خبر بھی کسی کو نہ ہوتی اگر پاکستان کے مشہور سیاستدان خان عبدالولی خان صاحب اپنی کتاب Facts are Facts کی تیاری کے لیے لندن جاکر ریکارڈ تلاش نہ کرتے۔ چونکہ جنرل ضیاءالحق کا زمانہ تھا اس لیے ایک طبقے نے گھبراہٹ میں اس میمورنڈم کی تردید اور وضاحتوں کا سلسلہ شروع کردیا جس کا کم از کم یہ فائدہ ضرور ہوا کہ یہ میمورنڈم ’’پاکستان ٹائمز‘‘ 23؍جنوری1982ء کے شمارے میں شائع ہوکر منظرعام پر آگیا۔
مضمون نگار نے ڈاکٹر اشتیاق صاحب کے الزامات کے ردّ کے طور پر مذکورہ میمورنڈم کے کچھ حصے پیش کرکے فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا ہے۔ظاہر ہے کہ اگر یہ میمورنڈم وائسرائے کو خوش کرنے کے لیے لکھا گیا تھا تو اس کے مضمون سے اختلاف نہ کیا جاتا جبکہ میمورنڈم کے آغاز میں ہندوستان کے آئینی مستقبل کے بارے میں وائسرائے اور گورنرجنرل ہند Linlithgow اور گاندھی جی کے بیانات کا ذکر کرنے کے بعد آپؓ لکھتے ہیں کہ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، ان دونوں میں سے کوئی بھی موقف منظور کیا جائے تو بےچینی کا منظر سامنے آتا ہے۔ آج اقلیتیں بالخصوص مسلمان اپنے مستقبل کے بارے میں اتنی تشویش میں مبتلا ہیں جتنا آج سے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اوسط برطانوی سیاستدان ہندوستان کے حالات کے متعلق مکمل طور پر لاعلم ہے۔ جبکہ کانگریس وائسرائے اور سیکرٹری آف سٹیٹ کو مجبور کرکے اُن سے ایک کے بعد دوسرا اعلامیہ نکلوارہی ہے۔
مذکورہ فقرات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکٹر اشتیاق صاحب کا یہ مفروضہ ہی مضحکہ خیز ہے کہ میمورنڈم برطانوی حکام کے اشارے پر لکھا گیا تھا۔ آپؓ نے واضح طور پر لکھا ہے کہ برطانوی سیاستدان کانگریس کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں۔

حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ

آپؓ وائسرائے کو مزید لکھتے ہیں کہ آپ کی تقریر کے بعد مسلمانوں کے لیے پوزیشن اتنی خراب ہوگئی ہے کہ اس سے زیادہ خراب ہونا مشکل ہے۔
پھر ریاستوں کے بارے میں برطانوی مدبّرین اور سیاستدانوں کی آراء کا ذکر کرکے لکھتے ہیں کہ برطانوی اکابرین کی یہ تجاویز انتہائی غیرمنصفانہ اور غیرمتوازن ہونے کے ساتھ ساتھ غیرجمہوری بھی ہیں۔
برطانوی حکومت نے ہندوستان کے لیے 1935ء میں ایک آئینی ڈھانچہ منظور کیا تھا۔ اس کے بعض اہم پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ انتظامات اسی طرح ہیں جیسے کسی چیز کی ٹانگیں اوپر اور سر نیچے ہو۔
اخبار ’’پاکستان ٹائمز‘‘ میں اس میمورنڈم کے ساتھ وائسرائے لارڈ Linlithgow کا ایک خط بھی شائع ہوا ہے جو برطانیہ کے وزیر لارڈ Zetland کو لکھا گیا تھا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وائسرائے کے نزدیک تقسیم ہند کی تجویز ایک انتہائی نقطہ نگاہ تھی چنانچہ انہوں نے بعد میں حضرت چودھری صاحبؓ سے کہا کہ مجھے بھی اس کی تفصیلات کے متعلق کچھ اعتماد میں لیا جائے۔ اس پر چودھری صاحب نے کہا کہ اس کی کاپیاں قائداعظم محمدعلی جناح اور حیدری صاحب کو بھجوائی جاچکی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں