پروفیسر ڈاکٹر سید اختر اورینوی

پروفیسر ڈاکٹر سید اختر اورینوی اردو ادب کا ایک بڑا نام ہے۔ اختر اورینوی ایک صاحب طرز ادیب، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، ناول نگار، تنقید نگار اور شاعر تھے۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍ اگست 2005ء میں مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب سے محترم پروفیسر صاحب کی شخصیت اور خدمات سے متعلق ایک تفصیلی مضمون شامل اشاعت ہے۔
اختر اورینوی 19؍ اگست 1912ء کو صوبہ بہار کے قصبہ کاکو میں پیدا ہوئے۔ اردو، فارسی اور انگریزی کی تعلیم اپنے والد بزرگوار حضرت سید وزارت حسین صاحبؓ سے حاصل کی۔ گھرانہ بہت مذہبی تھا۔ آپ کا بیان ہے کہ میرے چچا اور والد آریوں اور عیسائیوں کے مباحثوں کے قصے سناتے اور ہمیں کلام پاک پڑھاتے تھے۔ روزانہ صبح کے بعد درس ہوتا۔ والد صاحب کو ادبی ذوق بالکل نہیں تھا۔ لیکن انہوں نے ایک کتاب ’’مرآۃ الجہاد‘‘ لکھی تھی۔ چچا کو ادبی ذوق بھی بہت تھا۔
اختر کو حضرت مولانا حکیم خلیل احمد مونگھیریؓ سے بھی تحصیل علم کا موقع ملا۔1926ء میں میٹرک میں وظیفہ حاصل کیا۔ 1934ء میں B.A. آنرز انگریزی کے امتحان میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ 1936ء میں ایم اے اردو فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ پاس کیا۔ 1938ء میںپٹنہ کالج میں ہی اردو کے لیکچرار ہوئے۔ 1965ء میں پٹنہ یونیورسٹی سے ایک پُر مغز مقالہ ’’بہار میں اردو کا ارتقاء‘‘ لکھ کر ڈی لِٹ کی ڈگری حاصل کی۔ 1952ء سے تاوفات 1975 پٹنہ یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو رہے۔
اختر صاحب کا مذہب سے عشق ایک وارفتگی لئے ہوئے تھا۔ آپ مذہب اور ادب کا حسین امتزاج تھے۔ آپ ایک واقف زندگی تھے اور آپ نے وقف کے عہد کو ہمیشہ مدنظر رکھا۔ جب آپ کی عمر آٹھ سال تھی تو ٹائیفائیڈ کا حملہ ہوا۔ چالیس دن سرسامی کی کیفیت رہی۔ والد صاحب اُس وقت وقف فی الدین کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے شفاء عطا فرمائی۔ پھر بار بار مہلک بیماریوں کا حملہ ہوا لیکن اللہ تعالیٰ نے شفاء دی۔ جب بڑے ہوئے تو والد نے آپ کو وقف کے عہد سے مطلع کیا۔ آپ رضامند ہوگئے اور میڈیکل کالج میں پڑھنا شروع کیا ۔ لیکن وہاں سل کا حملہ ہوا اور برسوں بیمار رہے۔ لیکن یہ طے کر لیا کہ وقف کے عہد کو نہیں توڑیں گے۔ چنانچہ حالات حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں لکھ بھیجے۔ حضورؓ نے جواباً تحریر فرمایا کہ آپ کے حالات کے پیش نظر آپ کو ملازمت کی اجازت دی جاتی ہے۔ آپ کے لئے یہی وقف شمار ہوگا۔ آپ جہاں بھی ہوں زبان و قلم اور دوسرے اعمال کے ذریعہ خدمت دین کرتے رہیں۔
جب 1941-42ء میں حضورؓ نے نوجوانوں کو وقف کی تحریک کی تو آپ نے بھی خود کو پیش کردیا۔ تب آپ لیکچرار تھے۔ جواباً حضورؓ نے فرمایا کہ آپ جہاں ہیں وہیں رہیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے دلوں کے دروازہ پر کھڑا کیا ہے، خدمت دین میں لگے رہیں۔
ساری زندگی آپ بہت پُرجوش داعی الی اللہ رہے۔ اگرچہ کمزور صحت کے مالک تھے اور بیماریاں بار بار حملہ آور ہوتی رہیں لیکن آپ نے اردو ادب کے لئے اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کیا اور اپنی ادبی صلاحیتوں کا لوہا اپنوں اورغیروں سے منوایا۔
آپ کی تصنیفات میں ڈرامہ (شہنشاہ حبشہ)، ناول (حسرت تعمیر، کارواں)، افسانوں کے کئی مجموعے، تنقیدی اور تحقیقی تصانیف، شعری مجموعے (انجمن آرزو ، ایک زیر طبع )، اداریے (’’معاصر‘‘ پٹنہ کے 1940ء تا 1947ء تک اداریے مستقل طور پر لکھتے رہے)۔ نیز کئی ریڈیائی ڈرامے، ریڈیائی تقاریر اور ادبی سماجی مذہبی موضوعات پر سینکڑوں تقریریں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مذہبی موضوعات پر کئی مضامین الفضل قادیان اور بدر قادیان میں شائع ہوئے۔ قرآن کریم کی کئی سورتوں کی تفسیریں بھی لکھی ہیں۔ جلسہ سالانہ قادیان پر صدارت اور تقاریر کا موقع بھی ملتا رہا۔
1930ء میں ترقی پسند مصنفین کی تحریک کا آغاز ہوا تو اختر اس میں شامل ہوگئے تھے۔ وہ کمیونزم سے شدید متاثر تھے۔ لیکن 1942ء میں قادیان تشریف لے گئے اور ایک ماہ تک قیام کر کے حضرت مصلح موعودؓ سے سوالات کرکے تسلّی حاصل کی اور پھر ترقی پسند مصنفین کے ناقد بن گئے۔
آپ حضرت مصلح موعودؓ کی دلآویز شخصیت سے بہت متاثر تھے جس کا آپ مختلف تقاریر اور انٹرویوز میں اظہار کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ پاکستان کے نامور ادیب جناب محمد طفیل صاحب ایڈیٹر ’’نقوش‘‘ نے آپ پر ایک تفصیلی مضمون لکھا جس میں اس پہلو کا بھی خاص طور پر ذکر کیا۔ آپ نے حضورؓ کی سیرت پر بہت خوبصورت کتاب بھی تصنیف فرمائی تھی۔
انجمن ترقی پسند مصنفین کے آپ اپنی سرکاری ملازمت کے باعث کبھی باضابطہ ممبر نہ رہے۔ حالانکہ آپ کو صوبہ بہار کی اردو شاخ کی صدارت کی پیشکش بھی کی گئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ترقی پسندی اور اشتراکیت ہم معنی الفاظ نہیں سمجھے جاتے تھے۔ بعد میں اشتراکی ادیبوں نے کانگریس سے نکل کر انجمن ترقی پسند مصنفین کو ایک اشتراکی ادارہ بنا دیا اور اُس مصنف کو جو اشتراکی نقطہ نظر کی حمایت یا اشاعت نہ کرتا ہو، اُسے اپنے حلقے سے خارج کر دیا۔ اختر کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے انسانیت کو ایک ناقابل تقسیم وجود سمجھ کر فلسطین کی تقسیم کے خلاف اور مظلوم عربوں کی ہمدردی میں ایک افسانہ لکھا جس میں امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ اشتراکی روس کی بھی مذمت کی جس نے دنیا کی ایک پس ماندہ قوم کے خلاف سازش میں حصہ لیا تھا۔ اس مضمون کی اشاعت پر انہیں رجعت پسند کا خطاب عطا ہوا اور ہر طرف سے مخالفت ہوئی لیکن اس کے باوجود آپ تعصب اور تنگ نظری سے دُور رہے۔ تحمل اور رواداری آپ کی بڑی خوبی تھی۔ عقیدہ کے معاملہ میں بہت ہی پختہ انسان تھے اور جرأت کے ساتھ اس کا اعلان کرتے تھے۔ اس معاملہ میں نہ کسی بڑی شخصیت سے مرعوب ہوتے اور نہ ہی عقیدہ اور مصلحت میں مفاہمت کے قائل تھے۔ پُرجوش داعی الی اللہ تھے اور کئی افراد آپ کے ذریعے حلقہ بگوش احمدیت ہوئے۔
تقسیم ہندوستان کے بعد آپ پٹنہ میں ہی رہے اس لئے پاکستان کے قارئین آپ کے نام اور کام سے خاطر خواہ آگاہ نہ ہوسکے۔اس کے باوجود نامور محقق اور تنقید نگار ڈاکٹر عبادت بریلوی نے اپنی کتاب اردو تنقید کا ارتقاء میں اختر اورینوی کی تنقید نگاری کے محاسن کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر اعجاز حسین بٹالوی۔پروفیسر آل احمد سرور نے اختر اورینوی کے فن پر مضامین لکھے ہیں۔ پاکستان کے نامور علمی اور ادبی رسالے ’’نقوش‘‘ کے ایڈیٹر جناب محمد طفیل نے ایک تفصیلی مضمون آپ کے بارہ میں شائع کیا نیز آپ کے متعدد مضامین اور افسانے بھی اس میں شائع ہوئے۔ ہندوستان کے مشہور ادبی رسالے ساغر پٹنہ نے 516 صفحات پرمشتمل اختراورینوی نمبر جنوری 1965ء میں شائع کیا تھا جس میں آپ کے فن اور شخصیت پر نہایت بلند پایہ تحقیقی مضامین شامل کئے گئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں