پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام صاحب

ہم نے کس طرح عظمت کو آسودۂ خاک کردیا

پاکستان کے اخبار ’’دی نیوز‘‘ 12 فروری 2012ء کی اشاعت میں جناب مسعو د حسن کا مضمون ’’ہم بمقابل ڈاکٹر عبدالسلام‘‘ شائع ہوا تھا۔اس میں اضافے کے طور پر برطانیہ میں پا کستان کے سابق ہائی کمشنر جناب واجد شمس الحسن کا مضمون ’’دی نیوز‘‘ میں 18فروری 2012ء کو شائع ہوا جس کا اردو ترجمہ مکرم زکریاورک صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29 مارچ 2012ء میں شامل اشاعت ہے جس کا خلاصہ پیش ہے۔
جناب واجد شمس الحسن صاحب مضمون نگار جناب مسعود حسن کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب مَیں ’’دی نیوز‘‘ کا کراچی میں ایڈیٹر تھا تو اس میں آپ تواتر سے کالم لکھا کرتے تھے، میں آپ کی تحریروں کا ہمیشہ سے مداح رہاہوں۔ لیکن اب مَیں آپ کے مضمون کی تعریف کرنے سے خود کو روک نہیں سکا۔
جب میں نے آپ کی نگارش کو پڑھنا شروع کیا تو مجھے یقین نہ آیا کہ ایسا آج کے پاکستان میں ہوا تھا۔ ہم کتنے خوفناک مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ ہم اچھی چیزوں کے بارے میں محض سپنے دیکھ سکتے ہیں، امید کے خلاف پُرامید ہوتے ہوئے کہ ایک نہ ایک روز ہم قائد اعظم کے پاکستان کے بارے میں ان کے ویژن کی طرف لَوٹ آئیں گے۔ اُس ویژن میں اس قسم کے پاگل پن کے لئے کوئی جگہ نہیں جو ہمارے ملک پر چھایا ہوا ہے، اور جس نے اس کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔ قائداعظم نے دو ٹوک فرمایا تھا کہ مذہب کو امور ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
یہ واقعہ جولائی 1994ء کا ہے جب وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے مجھ سے پروفیسر سلام کی گرتی ہوئی صحت کا ذکر کیا اور ہدایت کی کہ مَیں پہلی فرصت میں ہی ملاقات کر کے ان کی نیک خواہشات اور صحت یابی کی دعائیں ان تک پہنچاؤں۔ چنانچہ مَیں ڈاکٹر سلام کے درِدولت پر حاضر ہوا۔ وہ اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ہمراہ قیام پذیر تھے اور ان کی صحت بہت دگرگوں حالت میں تھی۔ میری ان سے ملاقات ایک گھنٹہ سے زیادہ تک رہی اور جذباتی طور پر یہ تباہ کن تھی۔ وہ خود اور ان کی فیملی مجھے دیکھ کر حیران ہوئے، ایک اجنبی جو اپنے ملک کے ہائی کمشنر کے عہدہ پر فائز ہے ان کے دروازہ پر دستک دے رہا ہے۔ جب میں نے ڈاکٹر سلام کو وزیر اعظم کا پیغام پہنچایا تو ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیل رواں جاری ہوگیا۔ (وہ ان دنوں پارکنسن بیماری کی ایڈوانس سٹیج پر تھے اور قوت گویائی مفقود تھی)۔ ڈاکٹر سلام نے لب کشائی کرنے کی کوشش کی لیکن وہ میری سمجھ سے باہر تھا جو وہ کہنا چاہ رہے تھے۔ ان کی بیٹی نے ترجمان کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے بتلایا کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا شکریہ ادا کرنا چاہتے اور یادآوری پر ممنون احسان ہیں ۔ وزیر اعظم کی طرف سے میں نے اُن کو پھولوں کا گلدستہ پیش کیا، اعلیٰ قسم کے باسمتی چاولوں کا ایک تھیلا اور آم۔ وہ اس اظہار مؤدت پر جذبات سے مغلوب ہوگئے۔
مَیں نے ان سے یہ بھی عرض کیا کہ اگر ان کو کسی قسم کی مدد ، تعاون، یا کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو وزیر اعظم ہرضرورت کو پورا کرنے پر مسرت محسوس کریں گی۔ اس کے بعد ایسا دلدوز منظر سامنے آیا جو مَیں کبھی بھی بھول نہیں سکوں گا۔ اشاروں کنایوں سے بمشکل انہوں نے قلم اور کاغذ طلب کیااوراپنی آخری تمنّا کوصفحہ قرطاس پر اتارا۔ وہ پاکستان میں دفن ہونا چاہتے تھے۔ مَیں یہ عجیب و غریب قسم کی خواہش دیکھ کر شش و پنج میں مبتلا ہوگیا کیونکہ جہاں تک میرے علم کا تعلق تھا، عام پاکستانیوں کے خاندانوں کے فوت شدہ اعزّہ کو مادروطن میں دفنائے جانے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔میں یہ جاننے سے عاری تھا کہ انہوں نے کیونکر محسوس کیا کہ ان کو ان کے جلیل القدرمرتبے کے پیش نظر شایان شان تدفین نہیں دی جائے گی۔ مَیں نے ان کو درازیٔ عمر کی دعا دی اور یقین دلایا کہ ان کی موت پر ان کی خواہش کے مطابق با عزت طریق سے ان کو آسودۂ خاک کیا جائے گا ۔ چونکہ یہ عظیم انسان شکوک میں مبتلا تھا اس لئے مَیں نے ان کی آخری خواہش وزیراعظم تک پہنچا دی جنہوں نے مجھے تاکید کی کہ میں ڈاکٹرسلام اور ان کے خاندان کو یقین دہانی کرادوں کہ ان کو حکومتی عزت و احترام سے ان کی مطلوبہ جگہ پرآسودۂ خاک کیا جائے گا۔
آکسفورڈ سے واپسی پر مَیں نے اس نا بغۂ روزگار سائنسدان سے ملاقات کی تفصیلی رپورٹ وزیراعظم کو ارسال کردی۔ میری موہوم یاد کے مطابق محترمہ نے ڈاکٹر سلام کی عزت افزائی کے لئے متعدد اقدامات اٹھانے کا حکم ارشاد فرمایا تھا۔ انہوں نے وطن عزیز کی کسی ایک بڑی یو نیورسٹی میں ڈاکٹر سلام چیئر قائم کرنے کی منظوری دی اور یہ بھی کہ ایک یونیورسٹی ڈاکٹرسلام کے نام سے منسوب کی جائے یا قائم کی جائے۔ وزیراعظم کے ترجمان فرحت اللہ بابر اور میں نے اس ضمن میں کچھ کاغذی کارروائی مکمل کی تا اس پر عمل درآمد ہوسکے۔ افسوس صد افسوس کہ تمام کام میں خلل پڑ گیا جب پاکستان پیپلز پارٹی سے بر گشتہ فاروق لغاری نے حکومت کو سبکدوش کر دیا۔ ڈاکٹر سلام کو پاکستان میں آسودۂ خاک کیا گیالیکن یہ حکومتی شان و شوکت یا عزت و احترام والی تدفین نہیں تھی، نہ ہی کسی حکومتی منصب دار نے تجہیز و تکفین میں شرکت کی۔
ہم نے اپنے مشاہیر پر فخر کرنا نہیں سیکھا، ہم ان کی یادوں کو ملیا میٹ کر رہے ہیں، ان سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ لبنان کے عظیم شاعرو فلاسفرخلیل جبران نے ہمارے جیسے لوگوں کے متعلق کہا تھا
’’اس قوم پر صد افسوس جو لٹیرے کو ہیرو تسلیم کرتی ہے اور جو چمک دمک والے فاتح کوسخی جانتی ہے‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں