پروفیسر ڈاکٹر نسیم بابر صاحب شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ کے مختلف شماروں میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم پروفیسر ڈاکٹر نسیم بابر شہید 1952ء میں محترم ڈاکٹر سید محمد جی احمدی اور محترمہ سیدہ امۃالوحید صاحبہ کے ہاں پیدا ہوئے۔ حضرت سید محمد شاہ صاحبؓ آپ کے دادا تھے۔ آپ بچپن سے ہی غیرمعمولی ذہین تھے۔ مڈل سے لے کرPh.D. تک مسلسل تعلیمی وظائف حاصل کرتے رہے۔ طالبعلمی کا زمانہ راولپنڈی میں ایک مستعد متحرک خادم کے طور پر گزارا اور مختلف شعبوں کے ناظم رہے۔
وارسا ٹیکنیکل یونیورسٹی پولینڈ سے.Ph.D کرنے کے بعد 1980ء میں واپس آئے۔ پولینڈ میں قیام کے دوران محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب مرحوم کے ادارے انٹرنیشنل سنٹر فار تھیوریٹیکل فزکس سے مختصر کورسز بھی کیے اور اسی دوران سویڈن، جرمنی اور اٹلی کی کئی یونیورسٹیوں سے بھی آپ کا رابطہ ہوگیا۔ چنانچہ بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر آپ کو بارہا جانے کا موقع ملا۔ ٹیکنیکل یونیورسٹی برلن میں تقریباً ایک سال گزارا اور پھر اس یونیورسٹی سے اپنے قریبی روابط کی بِنا پر Defects in Semi-conductor Materials اور High Temperature Super Conductivity کے میدان میں ایسی اعلیٰ اور قابل قدر ریسرچ کی کہ برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ فزکس میں آپ کی نگرانی میں Semi-conductor Materials پر مزید تحقیق کے لیے ایک شعبہ کھولنے کی منظوری دے دی۔ اس سلسلے میں تمام انتظامات مکمل تھے اور جرمنی سے اہم سائنسی آلات کی درآمد شروع ہونے والی تھی کہ آپ کی شہادت ہوگئی۔
10؍ اکتوبر1994ء کی رات ساڑھے دس بجے آپ نے گھنٹی بجنے پر اپنے گھر کا دروازہ کھولا تو چہرے پر نقاب اوڑھے ہوئے ایک شخص نے اچانک کلاشنکوف کے دو فائر کئے۔ ایک آپ کے دل پر لگا اور دوسرا گردن پر۔ دونوں گولیاں جسم سے پار ہوگئیں۔ قاتل فوری طور پر دیوار پھلانگ کر عقبی جنگل میں فرار ہوگیا۔ آپ کی اہلیہ مکرمہ تمکین بابر صاحبہ کے شور مچانے پر ہمسایہ پروفیسر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی دوڑے آئے اور آپ کو اپنی کار میں ڈال کر ہسپتال کی طرف روانہ ہوئے لیکن راستے ہی میں روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
شہید مرحوم نے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ ایک بیٹی اور دو بیٹے چھوڑے۔ آپ کی شہادت پر پاکستان میں متعیّن جرمنی کے سفیر کے علاوہ قائداعظم یونیورسٹی کے مختلف پروفیسرز اور دیگر شخصیات نے، نیز قومی اخبارات ’’دی نیوز‘‘ راولپنڈی، ہفت روزہ “Pulse” اسلام آباد، ’’دی مسلم‘‘ اسلام آباد نے ملائیت اور مذہبی تعصب کو جتنا بھی وہ برا بھلا کہہ سکتے تھے، کہا اور آپ کی وفات پر آپ کے پسماندگان سے تعزیت کی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں