پیاز

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍فروری 2007ء میں مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب نے اپنے معلوماتی مضمون میں پیاز کے خواص پر روشنی ڈالی ہے۔
الہامی کتابوں میں سے تورات میں پیاز کا ذکر ملتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے اور اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے من و سلویٰ کا انتظام فرمایا تو ایک ہی قسم کا کھانا کھاتے ہوئے بنی اسرائیل اُکتا گئے اور اس کا اظہار یوں کیا: ’’ہم کو وہ مچھلی یاد آتی ہے جو ہم مصر میں مفت کھاتے تھے اور ہائے وہ کھیرے اور وہ خربوزے اور گندنے اور پیاز اور لہسن لیکن اب تو ہماری جان خشک ہو گئی ، یہاں کوئی چیز میسر نہیں اور من کے سوا ہم کو اور کچھ دکھائی نہیں دیتا‘‘۔(گنتی باب 11آیت 5)۔ اسی واقعہ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی فرمایا ہے (سورۃ البقرہ آیت نمبر62)
اس شکوہ کی وجہ یہ تھی کہ بنی اسرائیل مصر میں پیاز کھانے کے عادی تھے ان کے کھانے کا یہ ایک اہم جزوتھا ۔ فرعون کی غلامی میں جب وہ بیگار کیا کرتے تھے تو ایک بار انہوں نے ہڑتال کردی تاکہ اُن کو روٹی کے ساتھ نمک کے علاوہ پیاز بھی دیا جایا کرے۔ یہ مطالبہ مان لیا گیا۔

پیاز کی اس وقت اڑہائی ہزار سے زائد اقسام تیار ہوچکی ہیں۔ کئی اقسام صرف ادویات میں استعمال ہوتی ہیں۔ تین ہزار امراض ایسے ہیں جن میں پیاز کا استعمال ہوتا ہے۔ پیاز میں حیاتین اور دوسرے قیمتی عناصر بڑی مقدار میں موجود ہیں ۔ اس میں نشاستہ ، چونا، تانبا، فولاد ، گندھک ، میگنیشیم ، پوٹاشیم وغیرہ شامل ہیں۔
فرانس میں پیاز کا استعمال کئی طریقوں سے اور دیگر ممالک کی نسبت بہت زیادہ کیا جاتا ہے۔ مشہور فرانسیسی محقق گستان ولی بان تاریخ عرب پر ایک سند رکھتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ کھجور کے بعد عربوںکی بہترین اور پسندیدہ غذا پیاز اور لہسن جیسی سبزیاں تھیں۔ خلفائے عباسیہ کے دور میں پیاز کے گوناگوں خصائص دریافت کئے گئے۔ بو علی سینا کی مشہور کتابوں میں پیاز کے بارے میں جو معلومات درج ہیں انہیں آج کے سائنسدان بھی درست مانتے ہیں۔ ہارون اور مامون الرشید کے عہد میں پیاز کے مربے اور چٹنیاں ایجاد کی گئیں جو خلفاء کو بہت پسند تھیں۔ 1956ء میں یورپ میں پہلی بار جڑی بوٹیوں اور پودوں پر جو کتاب لکھی گئی اس میں تمام تر معلومات عربی اور یونانی کتابوں سے اخذ کی گئیں۔اس کا ایک خاص باب پیاز کے خصائص پر مشتمل ہے جس میں پاگل کتے کے کاٹے کا علاج پیاز سے بتایا گیا ہے۔ نیز گنجے پن کا بہترین علاج بھی پیاز کے عرق کا سر پر مالش کرنا لکھا گیا ہے۔
مغل شہنشاہ بابر اپنی خود نوشت تزک بابری میں لکھتا ہے کہ ہم پر ایسا وقت بھی آیا جب کھانے کو کچھ نہ ملا، آخر پیاز اور شہد کے ذریعے بھوک مٹائی اور ایسی جسمانی طاقت حاصل ہوئی جو اعلیٰ سے اعلیٰ مقوی ترین غذاؤں سے بھی نہ ملی ۔
شہنشاہ ہمایوں حقے کا شوقین تھا۔ طبیب تمباکو کو پیاز کے عرق میں ملا دیتے تھے۔ شاہی دستر خوان پر پیاز کے مختلف سالن، اچار اور چٹنیاں موجود رہتی تھیں۔ اکبر کے دَور میں پیاز کے استعمال میں بے انتہاجدتیں پیدا کی گئیں۔ نواب سعادت علی خاں کا ایک باورچی محض پیاز بنانے کی اجرت پانچ سو روپے ماہوار لیتا تھا۔ وہ پیاز کو اس طرح گلاتا تھا کہ معلوم ہوتا کہ کچی پیاز کی گھٹیاں دسترخوان پر کھ دی گئی ہیں لیکن جب کھاتے تو لاجواب معلوم ہوتا۔
مہلک اور خراب زخموں کو اچھا کر دینے کی صلاحیت پیاز میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ دوسری عالمگیر جنگ کے دوران روسی ڈاکٹروں نے ادویہ کی کمی کی وجہ سے محاذ جنگ پر زخمی ہونے والے سپاہیوں کا علاج محض کچے پیاز سے کیا تھا ۔ زخم پر پیاز باندھ دیا جاتا تھااور ایک دو دن بعد زخم خشک ہو جاتا۔ اس کے علاوہ گلے کے بڑھے ہوئے غدودوں، کالی کھانسی، دمہ، پھیپھڑے اور حلق کی دق، نزلہ زکام، ذیابیطس، سر درد، مرگی، معدے اور بواسیر کے امرا ض میں مختلف طریقوں سے پیاز کا استعمال شفایابی کی ضمانت ہے۔ زہریلے کیڑ ے کے کاٹے کا فوری علاج پیاز کا پانی ہے۔ سانپ ، بچھو اور بھڑ کاٹ لے تو جسم کے اس حصہ پر پیاز اور نوشادر کا پانی لگانے سے چند منٹوں میں سوزش جاتی رہے گی۔ انسائیکلوپیڈیا آف میڈیسن میں پیاز کے بارہ میں کئی حقائق درج ہیں۔
حال ہی میں سوئٹزرلینڈ کے سائنس دانوں نے انکشاف کیاہے کہ پیاز میں ایک کیمیاوی جزو GPCS پایا جاتا ہے جو ہڈیوں سے کیلشیم جیسے اہم جزوکو ضائع ہونے سے روکتا ہے۔ پس یہ کوئی معمولی سبزی نہیں بلکہ بہت کارآمد سبزی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں