چند پاکیزہ ہستیوں کا ذکر خیر

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 18؍نومبر2024ء)

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ امۃالحئی میر صاحبہ نے خاندانِ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعض بزرگ خواتین کی سیرت اپنے مشاہدات کے حوالے سے رقم کی ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ
جمّوں میں قیام کے دوران

آپ بیان کرتی ہیں کہ میری شادی 1944ء میں کشمیر میں اپنے گاؤں آسنور میں ہوئی۔ وہاں بہت سے احمدی خاندان آباد تھے جس کی وجہ سے گاؤں کا ماحول بہت پاکیزہ تھا۔ گرمیوں میں قادیان سے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ اور حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی فیملیاں اور بعض مربیان بھی آسنور میں سیر کی غرض سے آیا کرتے تھے۔ اس طرح جلسے جیسا ماحول بن جاتا۔ آس پاس کے دیہات سے بھی لوگ جمعہ پڑھنے کے لیے آسنور آتے۔ سیبوں کے باغوں میں ٹینٹ لگتے جہاں خاندان الگ الگ ٹھہرتے تھے البتہ حضرت امّاں جانؓ میرے والد مکرم خواجہ عبدالعزیز ڈار صاحب کے بنگلے میں رہنا پسند فرماتیں اور میری والدہ خورشیدہ بیگم صاحبہ کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا پسند فرماتیں۔ اگر کسی جگہ دعوت ہوتی تو کہتیں: ڈار صاحب کی بیگم کو پہلے لے جاؤ میرا کھانا یہی پکائیں گی۔ یہ بہت صفائی سے کھانا بناتی ہیں ان کے ہاتھ میں ذائقہ ہے۔
شادی کے بعد مَیں اپنے میاں مکرم عبدالمنان صاحب کے ساتھ قادیان آئی کیونکہ وہ پہلے قادیان میں ہی پڑھتے تھے۔ پڑھائی سے فارغ ہونے کے چند سال بعد انہوں نے نور ہسپتال سے ڈگری لے کر دواخانہ نوردین میں باقاعدہ ملازمت شروع کردی۔ ہمیں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے گھر میں دو کمرے کا گھر ملا اور چالیس روپے تنخواہ ملتی تھی۔
حضرت امّاں جی صغریٰ بیگم صاحبہؓ نے مجھے خوب پیار دیا۔ وہ جانتی تھیں کہ یہ کس ماحول سے آئی ہے اور یہاں کیسے گزارہ کر رہی ہے۔ جب کبھی مَیں جاتی تو کہتیں: ’’آؤکشمیری دلہن! میرے ساتھ بیٹھ کر کشمیری چائے پیو۔ آم کھاؤ۔ یہاں سیب نہیں ملیں گے۔‘‘ ویسے کشمیر سے جو بھی آتا میرے لیے الگ اور حضرت امّاں جیؓ کے لیے الگ سیب کی پیٹی لاتا۔ آپؓ اپنے بچوں میں سیب بانٹتیں اور کہتیں: ’’میری کشمیری بہو نے یہاں بھی کشمیر بنادیا ہے۔‘‘ سال میں کوئی ایسا دن نہیں گزرا کہ ہم دونوں کے پاس سیب، بادام، اخروٹ اور شہد ختم ہوا ہو۔ آپؓ کے گھر کا ایک دروازہ ہمارے گھر میں کھلتا تھا۔ مَیں اکثر گرمیوں میں دوپہر کے وقت آپؓ کا کمرہ پانی ڈال کر ٹھنڈا کرتی اور پنکھے کے نیچے چارپائی کرکے اس پر چادر بچھاتی، تکیہ لگا کر کہتی آپ لیٹ جائیں۔ آپؓ مجھے کہتیں: پہلے تم میرا سر سہلاؤ۔ جب میں سوجاؤں گی تو تم چلی جانا ۔
آپؓ مجھے ہر عید پر عیدی دیا کرتی تھیں۔ کسی شادی میں جاتیں تو مجھے ساتھ لے جاتیں۔ پہلےگھر پر آکرمیرے میاں سے اجازت لیتیں۔ وہ اجازت دیتے تومجھے کہتیں: میاں کو کھانا کھلاؤ اور پھر آنا۔ اس طرح میری تربیت بھی کرتیں۔
1946ء میں میرے گھر پیاری سی بیٹی پیدا ہوئی۔ اس وقت میری امی میرے پاس تھیں۔ وہ جاکر حضرت امّاں جیؓ کو بلاکرلائیں۔ انہوں نے میرے سرہانے بیٹھ کر دعائیں شروع کیں اور پھر بچی کو شہد چٹایا۔ پھر گھر جا کر میرے لیے حلوہ بنا کر بھیجا اور چائے بھی بھیجی۔
مَیں ہفتے میں دو تین مرتبہ حضرت اماں جانؓ کے پاس شام کے وقت موتیے کا ہار یا گجرا، کشمیری سیب اور اخروٹ لے کر جاتی اور وہ مجھے اپنے ہاتھ سے امرود کاٹ کر کھلاتیں۔ ایک دفعہ میں نے کہا کہ آج تو میں یہ امرود گھر لے کر جاؤں گی اپنے میاں کو کھلاؤں گی۔ آپؓ بہت خوش ہوئیں اور کہا: یہ دوسرا والا امرود میاں کے لیے لے جاؤ جو مَیں نے کاٹا ہے وہ تم کھاؤ۔
پاکستان میں میرا گھر سرگودھا کے گاؤں ہجن میں تھا جو حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ کے حوالے سے مشہور تھا۔ ایک دفعہ جب مَیں حضرت امّاں جانؓ سے ملنے گئی تو مجھ سے پوچھا: تم نے اپنی والدہ سے مسالے کی وڑیاں بنانی سیکھی ہیں؟ مَیں نے کہا کہ مَیں نے انہیں وڑیاں بناتے ہوئے دیکھا ہے مگر کبھی خود نہیں بنائیں۔ تو تاکیداً کہا: اگلی دفعہ بنا کر لانا، مَیں چیک کرکے بتاؤں گی کیسی بنی ہیں۔ گھر واپس جاکر تمام مسالے اکٹھے کیے اور وڑیاں تیار کرکے اپنے دیورعزیزم خواجہ عبداﷲ کے ہاتھ بھیج دیں۔ حضرت امّاں جانؓ نے فرمایا: ٹھہرو عبداﷲ! پہلے مَیں چیک کروں گی پھر جانا۔ پھرکافی دیر بعد آواز دی اور کہا: ’’اپنی بھابھی کو کہنا جزاکم اﷲ احسن الجزاء۔ بہت اچھی بنائی ہیں، ذائقہ اچھا ہے، بس ایک چیز، اس کی ماں کے ہاتھوں کی خوشبو کی کمی ہے۔‘‘یہ فقرہ سن کر مَیں بہت روئی کیونکہ مجھے اپنی والدہ سے ملے اٹھارہ سال گزرگئے تھے۔ وہ کشمیر میں تھیں اور مَیں پاکستان میں تھی۔ چھ ماہ بعد حضرت امّاں جانؓ سے ملاقات کا موقع ملا تو فورا ًفرمایا: ’’تم نے مسالے کی وڑیاں بنا کر بھیجی تھیں، ابھی تک میرے پاس پڑی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ جزائے خیر دے۔‘‘ اس وقت میری گود میں بیٹا تھا۔ اس کو پیسے پکڑا دیے اور مجھے ایک سوٹ کا کپڑا دیا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی فیملی جب کشمیر جایا کرتی تھی تو مَیں وہاں اپنی عمر کے حساب سے چھوٹے چھوٹے کام کرتی تھی، داد وصول کرتی اور دعائیں لیتی تھی۔ اس وجہ سے سب کا مجھ سے پیار کا تعلق قائم ہوگیا تھا۔ جب بھی حضورانورؓ کشمیر تشریف لے جاتے تو آپؓ کی بیگمات ہر ایک کو کوئی نہ کوئی تحفہ ضرور دے کر آتیں۔ اس کے علاوہ مجھے یاد ہے کہ ان کی ٹوٹی ہوئی چوڑیاں بھی ہم کزنز آپس میں تبرک کے طور پر بانٹ لیتی تھیں۔ ہمارے کشمیر والے گھر میں حضرت امّاں جانؓ کی استعمال شدہ چیزیں ابھی تک پڑی ہوں گی۔
پاکستان بن گیا تو ایک صبح مسجد مبارک قادیان میں اعلان ہوا کہ نوجوان قادیان میں ہی رہیں، البتہ بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کو آج ہی پاکستان روانہ کرنا ہوگا۔ میرے میاں نے بھی مجھے قافلے کے ساتھ روانہ کردیا۔ مَیں لاہور پہنچی تو رتن باغ میں ایک سکول تھا جس میں تمام عورتوں کو ٹھہرایا گیا تھا۔ اکتوبر کے مہینے میں کافی ٹھنڈ ہوگئی تو اکثر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور حضرت نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ کیمپ میں آکر حال پوچھتے اور دلجوئی کرتے۔ ایک بار حضرت بیگم صاحبہؓ نے پوچھا کہ غفار ڈار تمہارا کیا لگتا ہے؟ مَیں نے کہا: وہ میرے چچازاد بھائی ہیں، انہوں نے میری امی کا دودھ بھی پیا ہوا ہے۔ آپؓ نے مجھے گلے سے لگا کر کہا: وہ میرا بیٹا ہے میں نے اس کو پالا ہے۔ تم تو بہت امیر خاندان سے ہو بتاؤ کوئی ضرورت ہے؟ مَیں نے کہا کہ مَیں اس کمرے میں بہت بے سکون ہوں، ایک چھوٹا کمرہ بند پڑا ہے اگر مل جائے تو مَیں اور میری بیٹی سکون سے رہیں گی۔ اُن کے چلے جانے کے ایک گھنٹہ بعد ایک بزرگ کیمپ میں آئے اور پوچھا کہ کشمیر والی بی بی کونسی ہے؟ پھر انہوں نے ہمارے لیے چھوٹا کمرہ کھول دیا۔ مَیں نے کمرے کی صفائی کی اور سکون سے اس میں رہنے لگی۔

ہفتہ یا دس دن گزرنے کے بعد ایک دن میری طبیعت بہت خراب ہوئی۔ میں چونکہ اُمید سے تھی اور سخت پریشان تھی کہ اب کیا کروں کسے بلاؤں۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اتنے میں حضرت چھوٹی آپا اور حضرت مہر آپا میرے کمرے کے سامنے سے گزریں تو مَیں نے آواز دی۔ حضرت چھوٹی آپا نے ایک احمدی نرس کو بلوایا۔ اس نے مجھے چیک کیا اور کہا کہ انشاءاللہ رات نو بجے تک بچے کی پیدائش متوقع ہے۔ مَیں کوشش کروں گی آنے کی۔ مگر وہ کسی مجبوری کے تحت نہ آسکی۔ البتہ میری ہمسائی اس وقت میرے پاس مدد کے لیے موجود تھی۔ دونوں بیگمات بھی نو بجے دوبارہ اس ناچیز کے کمرہ میں تشریف لائیں۔ اللہ کے فضل اور دعاؤں سے بیٹے کی پیدائش ہوگئی۔ اس کے بعد وہ دونوں گھرتشریف لے گئیں اور حضرت مصلح موعودؓ کو بتایا کہ آج ہمارے کیمپ میں لال چقندر جیسا بچہ پیدا ہوا ہے۔ حضورانورؓ نے فرمایا: ’’کشمیری اور پٹھان بچے پیدائش کے وقت لال سرخ ہوتے ہیں۔‘‘ چھوٹی آپا نے بتایا کہ حضور وہ کشمیری ہے اور اس بچے کی ڈیڑھ سالہ بہن کا نام امۃالکریم ہے۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا : ’’یہ عبدالکریم آگیا ہے۔‘‘ چھوٹی آپا نے حضورانورؓ کو بتایا کہ اس عورت کے پاس کوئی کپڑا نہیں ہے، ہم نے بچے کو اس کی ماں کے دوپٹے میں لپیٹ دیا ہے۔ حضورانورؓ اس وقت وضو کرکے تولیے سے چہرہ صاف کررہے تھے۔ فوراً وہ تولیہ حضرت چھوٹی آپا کو دیا اور فرمایا: ’’ابھی جا کر اس تولیے سے بچے کو لپیٹ کر آؤ، اس کو ٹھنڈ نہ لگ جائے۔‘‘ چھوٹی آپا صاحبہ دوبارہ تشریف لائیں اور وہ تولیہ مجھے دیا جو تھوڑا سا گیلا تھا۔ مَیں نے اس میں منہ لپیٹ کر برکت حاصل کی اور خدا تعالیٰ کی اس نعمت کا شکر ادا کیا۔ چھوٹی آپا میرے لیے دودھ کا گلاس اور بچے کے لیے شہد اور کچھ کپڑے بھی لے کر آئی تھیں۔ بچے کو شہد چٹایا اور کہتی جارہی تھیں: دیکھو اس بھوکے مہاجر نے میری ساری انگلی کھینچ لی ہے۔

چند پاکیزہ ہستیوں کا ذکر خیر” ایک تبصرہ

  1. تمام پوسٹیں بہت اچھی ہوتی ہیں اور ان کے اندر بہت کافی معلومات بھی ہوتی ہیں- اللہ تعالی اپ کو جزا دے اس کے لیے امین

اپنا تبصرہ بھیجیں